پاکستان میں اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں لائق توجہ ہیں کہ ایک اوسط پاکستانی کی آمدنی کا نصف سے زائد کھانے پینے پر خرچ ہو رہا ہے جو ایک بلند ترین شرح ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس 2020ء میں شامل 107ممالک میں سے پاکستان 88ویں نمبر پر ہے۔ اسٹیٹ آف فوڈ سیکورٹی اینڈ نیوٹریشن ان ورلڈ رپورٹ برائے 2020ء کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت بارہ فیصد ہے اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً ڈھائی کروڑ افراد غذائیت کی کمی یا غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (ایف اے او) کا کہنا ہے کہ ”ملک میں خوراک تک رسائی زیادہ تر آبادی کی آمدنی سے منسلک ہے۔ کورونا کی وجہ سے آمدنی میں ہونے والے نقصان سے خوراک کے عدم تحفظ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔“ حالیہ آمدنی اور روزگار میں کمی اور مہنگائی کی وجہ سے گھرانوں کی قوتِ خرید میں کمی آئی ہے۔ مہنگی اشیائے خور و نوش سے قوتِ خرید کم ہوگی‘ جس کی وجہ سے خوراک سے متعلق عدم تحفظ میں اضافہ ہوگا اور غذا سے متعلق امراض پیدا ہوں گے۔ جنوری میں افراطِ زر کی شرح نو سال کی بلند ترین سطح پر تقریباً ساڑھے چودہ فیصد ریکارڈ کی گئی تھی اور وزیرِاعظم عمران خان نے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں کمی کا وعدہ کیا تھا۔ حزبِ اختلاف کا گیارہ جماعتی اتحاد عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کیلئے تحریک شروع کر رہا ہے اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اس میں ایندھن کا کام کررہا ہے۔ وزیر برائے غذائی تحفظ سید فخر امام کے مطابق ”حکومت مہنگی غذائی اشیا کے اثرات سے پوری طرح واقف ہے خاص طور پر مہنگائی کے اثرات کس طرح کم آمدنی والے طبقات کو متاثر کر رہے ہیں۔“ حکومت کے احساس پروگرام میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ (غریب) خاندان شامل ہیں۔ ان میں بارہ ہزار روپے (75امریکی ڈالر) فی خاندان تقسیم کئے گئے اور اس سے کم آمدنی والے طبقے کی مشکلات کچھ حد تک دور ہوئی ہیں۔ مذکورہ احساس پروگرام کا مقصد عدم مساوات کو کم کرنا اور ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے وعدے کے مطابق عوام پر سرمایہ کاری کرنا ہے۔ اس میں ایک سو سے زیادہ پالیسی اقدامات ہیں جن میں نقد امداد‘ صحت‘ خوراک اور رہائش کی فراہمی شامل ہے۔ غریب اور شدید متاثرہ خاندانوں کو نقد گرانٹ کی شکل میں فوری امداد کی پیش کش کیلئے مارچ میں ملک گیر لاک ڈاؤن کے درمیان احساس ایمرجنسی کیش پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ حکومتی پالیسیاں خاص طور پر اشیائے ضروریہ کی سبسڈی سے ’غذائی عدم تحفظ کو بہت حد تک کم کیا گیا ہے۔‘ تاہم حکومت کو اپنی حکمت ِعملی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ کم آمدنی والے افراد کو اپنی کمائی کا بڑا حصہ خوراک پر خرچ کرنا پڑتا ہے اس لئے ’وسائل کی اس طرح تقسیم کے بجائے ایک ہدف طے کرتے ہوئے سبسڈی ملنی چاہئے ایندھن کی قیمتوں اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث کھاد اور بیج دونوں کی لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دیہی علاقوں میں قیمتیں زیادہ بڑھ جاتی ہیں کیونکہ زیادہ منافع کیلئے سامان شہروں کو بھیج دیا جاتا ہے ساتھ ہی دالوں اور کھانا پکانے کے تیل جیسے درآمدی سامان کی قیمت میں اضافہ بھی اس کی وجہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کم پیداوار نے اجناس کی قیمتوں پر بھی مضر اثرات مرتب کئے ہیں۔ جس کا اثر گندم کی قیمت پر نظر آیا جب ملک اپنا پیداواری ہدف پورا نہ کر پایا۔ اقوامِ متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے مطابق موسمیاتی تغیر اور زراعت کے روایتی طریقوں کی وجہ سے فصل کی پیداوار کم رہی اور پھر ٹیکنالوجی کا محدود استعمال معیشت میں زراعت کی زوال پذیر شراکت کی اہم وجہ ہے جو اب جی ڈی پی کا تقریباً اُنیس فیصد بنتا ہے۔ حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب نے ملک کی غذائی تحفظ کی ناقص صورتحال میں اضافہ کیا ہے۔ سال دوہزاراُنیس میں حکومت نے آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا امدادی پیکج حاصل کرنے کیلئے سخت فیصلے کئے اور پھر کسانوں کی جانب سے خاص طور پر گندم کی قیمتوں میں زیادہ اخراجات کو لاگت میں شامل کرنے کے مطالبات کے خلاف مزاحمت کی گئی۔ گزشتہ سال گندم کی فصل پر فی ایکڑ آٹھ سے دس ہزار روپے (پچاس سے باسٹھ امریکی ڈالر) کا نقصان برداشت کیا لیکن کسان کے مفادات کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ ’اگر ہمیں ’زراعت کے شعبے کو‘ انتہائی مطلوب مدد مل جائے تو ہم بیس ارب ڈالر کی برآمدات کی ضمانت دے سکتے ہیں۔‘ مالی سال 2016-17ء میں پاکستان نے چھ ارب ستر کروڑ امریکی ڈالر کی مالیت کی خوراک اور زرعی مصنوعات درآمد کیں۔ پاکستان میں زرعی تحقیق کا فقدان پایا جاتا ہے اور گزشتہ سینتیس سالوں سے کاشتکاروں کو گندم کی واحد ایک ہی قسم دستیاب ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان ہمسایہ ممالک کی پیداوار سے کیسے مقابلہ کرسکتا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کے مطابق بیجوں کی نئی اقسام متعارف کروائی گئی ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: قمر زمان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)