وسکونسن یونیورسٹی کے سائنسدان کئی برسوں سے انسانی دماغ کا مطالعہ کر رہے اور اِس مقصد کےلئے اُنہوں نے نیپال کے 74 سالہ میتھو رکارڈکا انتخاب کیا ہے۔ میتھیو مولیکیولیر بیالوجی کے ماہر اور ڈاکٹر بھی ہیں۔ وہ دلائی لامہ کے ذاتی مشیر اور اُن کے مترجم کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیتے ہیں اور بدھ مت کی بااثر شخصیات میں اِن کا شمار ہوتا ہے۔ میتھیو کے دماغ کے اب تک کے مطالعے سے حاصل ہونے والے نتائج دلچسپ ہیں۔ اُن کے دماغ کا ’نیوکلیئر‘ ایم آر آئی کیا گیا جو تین گھنٹے تک جاری رہا۔ سائنسدانوں نے ا±ن کے سر پر 256 سنسرز لگائے تاکہ ان کے ذہنی دباو¿‘ چڑچڑے پن‘ غصے‘ خوشی‘ اطمینان اور درجنوں دیگر کیفیات اور احساسات کی سطح کا اندازہ لگا سکیں۔ سائنسدانوں نے ایسا دیگر سینکڑوں رضاکاروں کے ساتھ بھی کیا اور اُن کے دماغ کی جانچ بھی اِسی سے کی گئی۔ حاصل کردہ نتائج نے اس تجربے میں شریک ہر ایک شخص کی خوشی کی سطح کو ایک مخصوص پیمانے پر ناپا گیا جس میں 0.3 (بہت غمگین) سے منفی 0.3 (بہت خوش) تھا۔ میتھیو کو اس پیمانے پر منفی 0.45نمبر حاصل ہوئے‘ مطلب یہ کہ وہ اتنے خوش تھے کہ ان کی خوشی کا نمبر اسے ناپنے والے پیمانے پر بھی دستیاب نہیں تھا۔میتھیو معروف فرانسیسی فلاسفر ژان فرانسوا ریویل اور مصور یحنی لی ٹوملین کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے اپنے دوست اور فلسفی الیگزانڈر جولیئن اور نفسیاتی ماہر کرسٹوف آندرے کے ساتھ مل کر ایک دلچسپ کتاب لکھی ہے جو فرانس میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے اور اب یہ ہسپانوی زبان میں ’لانگ لئیو فریڈم‘ کے عنوان سے شائع ہو رہی ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں تینوں مصنفین نے اپنے خوف‘ صدمات‘ تعصبات اور غلط عادتوں پر قابو پانے کے حربوں بارے بتایا ہے۔ مختصراً مذکورہ کتاب میں یہ ہنر بتایا گیا ہے کہ خوف صدمات تعصبات اور غلط عادتوں جیسی رکاوٹوں کو کیسے دور کیا جائے‘ جو ہمیں خوش رہنے سے روکتی ہیں۔خوشی محض خوشگوار احساسات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ نہیں بلکہ یہ تو تھکا دینے والے ایک نسخے کی طرح لگتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ یہ زندگی گزارنے کا عمدہ طریقہ ہے جو بہت ساری بنیادی خوبیوں کا مجموعہ ہے جیسا کہ جذبہ ایثار‘ ہمدردی‘ اندرونی آزادی‘ پختگی‘ جذباتی توازن‘ اندرونی توازن‘ اندرونی امن اور دیگر کئی خوبیاں۔ خوشی کے برعکس ان تمام خصوصیات میں ایسی صلاحیتیں ہیں جو ذہنی مشق اور تربیت کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کوئی شخص خود کو خوش انسان سمجھتا ہے؟ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آسانی سے مطمئن ہونے والے اور انسانیت کی فلاح کےلئے زیادہ سے زیادہ عطیہ (صدقات) دینے والے زیادہ خوش رہتے ہیں۔ دنیا کو سمجھنا چاہئے کہ خوشی کا راز سخاوت اور ہمدردی میں ہے۔ خوشی کی تلاش میں خود غرضی کام نہیں آتی‘ یہ ایک ہارنے والی صورتحال ہے۔ آپ اپنی زندگی کو بھی مشکل بنا دیتے ہیں اور دوسروں کی زندگی بھی خراب کر دیتے ہیں جبکہ جذبہ ایثار کامیاب ہونے کی صورتحال بنا دیتا ہے۔ مقصد یہ ہونا چاہئے کہ دوسروں کو خوشی ملے اور ان کے دکھوں کا ازالہ کیا جا سکے اور بدلے میں انسان نیک اور مہربان بن کر بڑی خوشی محسوس کرتا ہے۔ سرمایہ اور مال و دولت سمیٹنے (بٹورنے) کا جنون اگر سوار ہوجائے تو اِس سے انسانی زندگی کی تکالیف و مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ دولت کو پاس رکھنا مسئلہ ہے کیونکہ ایسی صورت میں دولت کی لت لگ جاتی ہے۔ متعدد مطالعات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اگر ذہنی توجہ بٹی ہوئی ہو تو ایسا دماغ خوش نہیں ہوتا۔ ہر وقت غور و فکر میں مشغول ذہن خوش نہیں ہوتا اور اپنی اہمیت کا ضرورت سے زیادہ احساس بھی خوشی کا باعث نہیں بنتا۔ صرف نرم مزاجی‘ ہمدردی‘ دوسروں کے لئے دل کھلا رکھ کر اور آسانی سے بیرونی حالات سے مطمئن ہو کر دنیا میں کوئی بھی عورت یا مرد سب سے زیادہ خوش ہو سکتا ہے۔ اداسی مایوسی نہیں ہے‘ یہ حقیقی طور پر پھلنے پھولنے کے ساتھ ہم آہنگی رکھتی ہے۔ اندرونی آزادی ذہنی خصلتوں‘ خیالات میں گم ہونا اور ذہنی پیش گوئیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو یہ مایوسی اور تکالیف میں بدل جاتی ہیں۔ اِس مرحلے پر یہ بات بھی سمجھنے لائق ہے کہ ’غلام‘ شاید ایک اہم لفظ ہے لیکن جب نفرت‘ خواہشات‘ مستقل طور پر حسد اور تکبر و غرور انسان پر حاوی ہوتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی طرح اپنی ذہنی خرافات کے غلام بن جاتے ہیں۔ اس صورت میں ذہن آزادی سے بہت دور ہو جاتا ہے اور اندھا دھند دلکشی اور نفرت کی پیروی کرتا ہے اور اس سوچ کے ساتھ ایک قسم کا ٹھوس وجود منسوب کر لیتا ہے اور یوں انسان یقین کرنے لگتا ہے کہ کچھ لوگ پسند کے قابل ہیں اور کچھ سے نفرت کی جا سکتی ہے لیکن درحقیقت عملی زندگی میں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ہر شخص داخلی آزادی حاصل کرسکتا ہے یہ ذہن ہی ہے جو بیرونی حالات کو خوشی یا غم میں بدل دیتا ہے لہٰذا اگر ہم اس بگڑے ہوئے بچے یعنی اپنی سوچ کی تربیت کر لیں اور اس پر تھوڑا سا قابو پا لیں تو یہ ہمارے بہت سے رجحانات جن کے ہم عادی ہو چکے ہیں اور خودکار افکار سے خود کو آزاد کرنے کےلئے کافی مددگار ہو سکتا ہے اور یوں ہم زیادہ خوش ہوں گے۔ (بشکریہ: گارڈین۔ تحریر: ائرین ہرنینڈیز ولاسکو۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)