ادراک ضروری ہے کہ نوجوان نسل حشیش (چرس) کے علاوہ وہ ہیروئن اور کرسٹل نامی نشہ آور کیمیائی مادے کر رہی ہے اور نشہ آور اشیاءکا استعمال بڑھ رہا ہے بلکہ پاکستان کے کئی ایسے شہر بھی ہیں جہاں حشیش (چرس) کے نشے کو معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا لیکن یہی نشہ بعدازاں ہیروئن اور کرسٹل (آئس) تک لے جاتا ہے جس سے کسی بھی متاثرہ (نشے کے عادی) شخص کی زندگی گویا جہنم بن جاتی ہے!اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (UNODC) نے سال دوہزارتیرہ میں میں منشیات کے استعمال پر شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں بیان کیا تھا کہ پاکستان میں نشے کے عادی افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور گزشتہ سال ملک میں نشہ کرنے والے افراد کی تعداد ستاسٹھ لاکھ تھی۔ اس کے علاوہ بیالیس لاکھ افراد ایسے ہیں جو ممکنہ طور منشیات استعمال کرتے ہیں۔ ملک میں نشے سے بحالی کے مراکز اور ماہرین کی تعداد بہت کم ہے اور وہ صرف سال میں تیس ہزار افراد کو نشے سے نجات پانے کےلئے علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ نشے سے چھٹکارے کا علاج مفت بھی نہیں کیا جاتا۔ مذکورہ سروے میں یہ بھی بتایا گیا کہ ”پاکستان میں نشے سے چھٹکارا حاصل کرنے والے خواہش مند 99.7فیصد افراد علاج کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِن علاج معالجے کے مراکز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور بالخصوص نوجوانوں کو تمباکو نوشی اور دیگر نشہ آور اشیا کے استعمال سے باز رکھنے کےلئے شعور و تربیت پر توجہ دی جائے۔ یہ بات کس قدر ضروری اور اہم ہے اِس کا اندازہ صرف وہی خاندان لگا سکتے ہیں جن کے ہاں نشہ داخل ہو جاتا ہے اور پھر یہ کسی ایک عادی کو نہیں بلکہ پورے خاندان کی خوشیوں کو متاثر کرتا ہے۔ بظاہر دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نشہ ہر کسی کا مسئلہ نہیں لیکن اگر توجہ دی جائے تو نشہ ہر خاندان کا مسئلہ ہے اُن لوگوں کا بھی جن کے بچے نشہ نہیں کرتے لیکن اُن کے اردگرد نشہ موجود ہے اور یہ ایک ایسا سروں پر منڈلاتا خطرہ ہے جو صرف نوجوان لڑکوں ہی کو نہیں بلکہ لڑکیوں کو بھی متاثر کر رہا ہے اور ایسی جرائم کی کہانیاں موجود ہیں جن میں لڑکوں کی طرح لڑکیاں نشے کی عادی ہونے کی وجہ سے بے راہ روی اور جرائم کی راہ پر چل پڑیں۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی مرتب کردہ ایک اور رپورٹ کے مطابق سال2019ءپاکستان کے راستے سمگل ہونے والی تین سو پچاس سے چارسو ٹن افغان افیون میں سے 132ٹن افیون پاکستان ہی میں استعمال ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2009ءمیں ہی افغاستان سے کل 160ٹن ہیروئن پاکستان میں داخل ہوئی اور اس میں سے تقریباً بیس ٹن ہیروئن مقامی طور پر استعمال کی گئی۔ منشیات کی آسانی سے دستیابی اور بحالی مراکز کی کمی نے پاکستان کےلئے صورتحال کو سنگین بنا رکھا ہے تاہم سال دوہزارچودہ میں اقوامِ متحدہ نے یہ تجویز دی تھی کہ نشے کی عادت کو ایک طبی مسئلے کے طور پر دیکھا جائے اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک اپنے نظام ہائے صحت کے ذریعے اس کا حل تلاش کریں لیکن پاکستان میں نشے کے عادی افراد کا مسئلہ اِس لئے سنگین ہے کہ یہاں ریاستی ادارے ہم آہنگ نہیں۔ اقوامِ متحدہ نے منشیات کی لت کو صحت کےلئے خطرہ قرار دیا ہے اور اس کےلئے ریاست کی جانب سے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے کہ یہ ایک طبی معاملہ ہونا چاہئے لیکن پاکستان میں اسے محکمہ سماجی بہبود کے حوالے کردیا جاتا ہے جس کا اصل کام اُن مریضوں کی بحالی ہونا چاہئے جن کا علاج مکمل ہوچکا ہو۔ اگر حکومت ایچ آئی وی (ایڈز) کو صحت کےلئے خطرہ قرار دے سکتی ہے تو پھر منشیات کے حوالے سے تذبذب کا شکار کیوں ہے؟ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: شازیہ محبوب۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)