عالمی سطح پر مادری زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اِنہیں تعلیم کا ذریعہ بنایا گیا ہے جبکہ پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ چند صوبوں میں مقامی یا صوبائی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دیگر صوبوں میں اُردو‘ انگریزی یا پھر اِن دونوں زبانوں کا استعمال ہوتا ہے اور اِن دونوں زبانوں (انگریزی اور اُردو) کو یکساں اہم سمجھا جاتا ہے‘تعلیم کے حوالے سے کچھ باتیں ایسی ہیں جو تحقیق سے ثابت ہیں۔ بچے اس صورت میں بہتر طور پر سیکھتے ہیں جب انہیں اسی زبان میں تعلیم دی جائے جسے وہ سمجھتے ہوں۔ یہ ایک ظاہری سی بات ہے لیکن پھر بھی اس پر زور دیا جانا چاہئے۔ ابتدائی برسوں میں ذریعہ تعلیم وہ زبان ہوسکتی ہے جسے بچے گھر میں استعمال کرتے ہیں اور پاکستان میں یہ عمومی طور پر علاقائی یا مقامی زبانیں ہوتی ہیں۔ بچے کئی زبانوں کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی بچہ انگریزی یا اردو زبان سیکھنا چاہے تو اسے یہ زبانیں ایک مضمون کے طور پر پڑھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن ابتدائی برسوں سے لے کر اس وقت تک کہ جب بچہ دیگر زبانوں کے حوالے سے مشکل کا سامنا نہ کرے‘ اس کا ذریعہ تعلیم اس کی مادری زبان ہی ہونی چاہئے۔ والدین کی ترجیحات پر ہونے والی تحقیق سے یہ بات واضح ہے کہ اکثر والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں مہارت رکھتا ہو۔ ان دونوں زبانوں کو ہی معاشرتی اور معاشی ضامن کی صورت میں دیکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر انگریزی زبان کو معاشرتی اور معاشی ترقی کے حوالے سے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ہونے والے تجربات سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ معاشی اور معاشرتی ترقی کے حوالے سے والدین کے خیالات غلط نہیں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ابتدائی تعلیم میں مقامی یا علاقائی زبانوں کو ہی ذریعے تعلیم بنائیں (دیگر زبانیں سکھانے کیلئے بھی) انگریزی اور اردو زبان کو ایک مضمون کی طرح پڑھائیں اور پھر ایک ایسی سطح پر جب ہم یہ دیکھیں کہ بچہ کسی دوسری زبان کو اختیار کرسکتا ہے‘ تب ذریعہ تعلیم اس کی مقامی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک آسان کام نظر آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اسے پیچیدہ بنادیا ہے۔ آج بھی کئی صوبے ایسے ہیں جو ابتدائی تعلیم کیلئے مقامی زبانوں کو اہمیت نہیں دیتے اور اس کے لئے اردو یا انگریزی کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے کہ کس سطح پر انگریزی زبان متعارف کروانی چاہئے (کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ اسے چھٹی جماعت میں متعارف کروایا جائے)‘ ہمارے پاس اس بارے میں بھی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ آیا ہمیں ابتدائی تعلیم کے بعد ذریعہ تعلیم کو مقامی زبان سے تبدیل کرکے انگریزی یا اردو میں کرنا چاہئے یا نہیں اور اگر ہمیں ایسا کرنا چاہئے تو یہ کام کس سطح پر کیا جائے؟ لیکن جو چیز اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے وہ معیار تعلیم ہے۔ ذریعہ تعلیم سے قطع نظر ہمارے اکثر طلبہ جس معیار کی تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ غیر تسلی بخش ہے۔ تاریخی طور پر ہم ذریعہ تعلیم کو اس بنا پر تبدیل کرتے رہے ہیں کہ طلبہ کو اردو یا انگریزی میں مشکل پیش آتی ہے لیکن جب ہم ایک زبان کو درست طریقے سے پڑھائیں گے ہی نہیں تو ظاہری بات ہے کہ بعد میں اس زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے سے مشکلات جنم لیں گی۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: فیصل باری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)