کورونا وبا کی وجہ سے غربت و بیروزگاری میں اضافہ صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ وبا کی طرح ایک عالمی مسئلہ ہے جس کی نشاندہی کرتی ہوئے عالمی امدادی تنظیم ’نیو آکسفیم‘ نے انکشاف کیا ہے کہ کورونا وبا سے مالی طور پر متاثر ہونے والے دنیا کے ایک ہزار امیر ترین لوگ اپنے نقصانات کا ازالہ صرف نو ماہ میں کر پائیں گے جبکہ دنیا کے غریب ترین لوگوں کو معاشی نقصان پورا کرنے میں ایک دہائی لگے گی۔ آکسفیم کی ’وائرس کی تفریق‘ نامی رپورٹ ورلڈ اکنامک فورم کے افتتاحی روز ڈیووس ایجنڈے میں شائع کی جائے گی جس پر ترقی یافتہ ممالک کے سربراہ غور کریں گے اُور اِس رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کے معاشی مسائل‘ غربت میں کمی اُور روزگار میں اضافے جیسے اقدامات کے لئے‘ اُمید ہے کہ امدادی فنڈ کا قیام عمل میں آئے گا۔ مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وبا سے ہر ملک میں معاشی عدم مساوات پیدا ہوا ہے یا پہلے سے موجود اِس معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ ایک صدی سے مرتب ہونے والے ریکارڈ کے مطابق پہلی مرتبہ ایسا ہوگا۔ بڑھتے ہوئے معاشی عدم مساوات کا مطلب ہے کہ کورونا وبا کے بعد غربت کے شکار لوگوں کو واپسی کے لئے ایک ہزارارب پتی سفید فارم امیر ترین افراد کے مقابلے میں چودہ گنا طویل عرصہ لگے گا۔جنوبی ایشیا کے غریب ترین خطے میں ایک سو ایک ارب پتی افراد کو مارچ سے 174ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جو کورونا وبا کے باعث غربت کے شکار نو کروڑ تیس لاکھ کو فی کس ایک ہزار آٹھ سو ڈالر فراہم کرنے کے لئے کافی ہیں۔ تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کورونا وبا کیسے طویل بنیادوں پر معاشی‘ نسلی اور صنفی تقسیم کا باعث ہو رہی ہے۔برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ کورونا وبا کے آغاز (دسمبر 2019ئ) سے اب تک دنیا کے دس امیر ترین فراد کی دولت میں مشترکہ طور پر نصف کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جو کورونا کی ویکسین اور کسی کو بھی وبا سے غربت کا شکار نہ ہونے کی ضمانت دے سکتا ہے۔ ایک طرف وہ دنیا ہے جس کی معیشت اور اقتصادیات کورونا کے باعث سکڑ گئی ہے اُور دوسری طرف وہ دنیا ہے جس کی دولت میں کورونا وبا نے اضافہ کیا ہے کیونکہ اُن کے پاس طب کے شعبے میں تحقیق اُور علاج معالجے کے ترقی یافتہ وسائل پہلے ہی سے موجود تھے‘ جسے اُنہوں نے کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ اسی دوران کورونا وبا کی وجہ سے بے روزگاری کا بحران دنیا کی نوے برس کی تاریخ میں بدترین شرح ہے اور اب تک کروڑوں لوگ کورونا وبا کے باعث بے روزگار ہو چکے ہیں یا ان کے پاس کام کاج نہیں ہے۔ عالمی سطح پر اہم شعبوں میں کم تنخواہ پر کام کرنے والی خواتین سب سے زیادہ کورونا سے متاثر ہوئیں ہیں جبکہ گیارہ کروڑ بیس لاکھ خواتین کو روزگار ختم ہونے یا سرمایے میں کمی کا کوئی خدشے کا سامنا نہیں ہے۔ دنیا کی شفاف معیشتوں کا کورونا وبا سے متاثرہ مالی حالات سے بحالی کے بغیر دنیا کا معاشی نظام چلایا نہیں جا سکے گا تاہم یہ امر اپنی جگہ تشویشناک ہے کہ کورونا وبا سے فائدہ اٹھانے والے ممالک بھی ہیں اُور ایسی 32 عالمی کمپنیاں ہیں جنہوں نے اپنی پیداواری لاگت کم ہونے کے باوجود عارضی ٹیکسوں میں اضافہ کیا اور سال 2020ءمیں 104ارب ڈالر کا فائدہ اُٹھایا۔ یہ رقم کم اور درمیانی سرماے کی حامل ممالک کے تمام بچوں اور بزرگوں کے مالی تعاون کے لئے کافی ہے۔کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے دنیا کا متحد ہونا ضروری ہے۔ امیر اور غریب کی تمیز اگر برقرار رکھی گئی تو صرف مال و دولت کے انبار کافی نہیں رہیں گے۔ اِس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ امیر اور غریب میں گہری تفریق وبا کی طرح خون خوار ثابت ہو رہی ہے۔ جعلی معیشتیں امیر افراد کے لئے دولت کا باعث بن رہی ہیں جو وبا میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ سبھی طبقات جو کورونا وبا سے دوسروں کو بچانے کے لئے صف اوّل میں کھڑے ہیں یا کورونا وبا سے متاثرہ معیشتوں کی بحالی کی کوششوں کاحصہ ہیں جیسا کہ دکانوں میں کام کرنے والے‘ طبی عملہ اور مارکیٹوں کے دکان داروں کو مستقل مالی ذمہ داریاں (یوٹیلٹی بلز) ادا کرنے اور خوراک حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور اس بحران سے خواتین سمیت ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ کسی وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال میں غربت اور عدم مساوات میں اضافہ اِس بات کی علامت ہے کہ دنیا پر سرمایہ دارانہ طرز فکر حکمراں ہے اُور وبا سے زیادہ وبا کے یہ تباہ کن اثرات مضر ہیں۔ عالمی سطح پر تنزلی کے باعث ترقی پذیر ممالک اُور اُبھرتی ہوئی معیشتوں میں عدم توازن کے اثرات پڑ رہے ہیں اور ابھرتی ہوئی معیشتیں اِس بحران میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جبکہ اندازہ ہے کہ کورونا وبا جس پر تاحال قابو بھی نہیں پایا جا سکا اُور اِسے بچنے کی ادویات ویکسین بھی تاحال دنیا کے ہر شخص کو میسر نہیں تو اندیشہ ہے کہ کورونا سے متاثرہ معیشت کی بحالی میں دہائیاں لگ سکتی ہیں اُور بحالی کا یہ عمل اُس صورت میں زیادہ وقت طلب اُور دشوار ہوگا جب سرمایہ دارانہ سوچ برقرار رہے اُور دنیا ایک ایسی وبا کے خلاف دنیا نہ ہو‘ جس نے اِسے تقسیم در تقسیم (لاچار) کر دیا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر عدنان سعید۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)