بھارت میں نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج 2 ماہ سے جاری ہے‘ جس کے تحت یوم جمہوریہ (چھبیس جنوری) کے موقع پر دارالحکومت نئی دہلی میں پُرتشدد واقعات کے بعد اگرچہ کسانوں کی نمائندہ تنظیم نے ”ٹریکٹر پریڈ“ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن کسانوں کی احتجاجی تحریک جاری رہے گی جس کی حمایت کرتے ہوئے حزب اختلاف کی جماعت ’کانگریس‘ کے رہنما راہول گاندھی نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں کہا ہے کہ ”تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔“ انہوں نے حکومت سے درخواست کہ وہ ’کسانوں کے مطالبات کو اہمیت دیں اور بھارت کے مفاد میں نئے زرعی قوانین واپس لے لیں۔‘بھارت کے 72ویں یومِ جمہوریہ کے موقع پر دارالحکومت نئی دہلی میں کسان ٹریکٹر ریلی کا انعقاد جسے ”ٹریکٹر پریڈ“ کا نام دیا گیا میں پنجاب ہریانہ‘ مغربی اتر پردیش‘راجستھان اور کئی دیگر ریاستوں (صوبوں) سے ہزاروں کسان اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ شریک لے کر دارالحکومت نئی دہلی کے نواح میں پہنچے اور پھر وہ مختلف اطراف سے دارالحکومت میں داخل ہوئے۔ یہ احتجاج دہلی کے نواح میں تین مختلف مقامات پر جاری ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں کسان اور ان کے اہل خاندان (خواتین و بچے) شریک ہیں۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ متنازع زرعی قوانین واپس لئے جائیں کیونکہ اُنہیں خدشہ ہے کہ اِن قوانین کی وجہ سے اُنہیں اناج کی فروخت کے عوض مناسب دام نہیں ملیں گے اور مقامی منڈیوں پر نجی تاجروں کا قبضہ ہو جائے گا۔ بھارت میں یوم جمہوریہ کے موقع پر پریڈ میں مختلف فوجی دستے مارچ کرتے ہیں اور ملک کی مختلف ریاستوں کی ثقافت کی جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں۔ اس پریڈ میں جنگی ساز و سامان کی نمائش کے ذریعے ملک کی جنگی طاقت کا مظاہرہ بھی کیا جاتا ہے۔اس دن کی مناسبت سے بھارتی دارالحکومت اور اس کے اطراف میں ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ ٹریکٹر ریلی کے بارے میں کاشتکاروں میں کافی جوش وخروش تھے۔ انہیں دو ماہ سے جاری احتجاج کی کامیابی اور مقبولیت سے دکھائی دے رہا ہے کہ حکومت پر کسانوں نفسیاتی جیت ہو رہی ہے بھارت میں کسانوں کی اکثریت اپنی پیداوار حکومت کی زیر نگرانی چلنے والی منڈیوں میں کسی طے شدہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ یہ منڈیاں کسانوں‘ بڑے زمینداروں‘ آڑھتیوں اور تاجروں کی کمیٹیاں چلاتی ہیں جو کسانوں اور عام شہریوں کے درمیان زرعی اجناس کی ترسیل‘ ان کو ذخیرہ اور کسانوں کو فصلوں کےلئے پیسہ فراہم کرنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے کچھ قواعد اور اصول ہیں اور جس میں ذاتی اور کارروباری تعلقات کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ نئی زرعی اصلاحات کہنے کی حد تک تو کسانوں کو یہ سہولت فراہم کرتی ہیں کہ وہ روایتی منڈیوں سے ہٹ کر بھی اپنی پیداوار فروخت کر سکتے ہیں۔ ابھی تک واضح نہیں کہ اس پر حقیقی طور پر کس طرح عمل ہو گا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر ثاقب نور۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)