بیس جنوری دوہزاراکیس کے روز ایک معمر شخص نے امریکہ کے سیاسی سربراہی سنبھالی اور ’وائٹ ہاؤس‘ کے اوول آفس میں ایک ایسی نشست پر بیٹھے جو دنیا کی معاشی و سیاسی طاقت ہے اور پہلے ہی روز‘ امور مملکت کی ابتدا ء کرتے ہوئے امریکہ کے اس نئے صدر نے بیک جنبش قلم ’مسلمانوں پر عائد پابندیاں‘ ختم کردیں۔ انہوں نے امریکہ میں داخلے پر عائد امتیازی پابندیوں کو ختم کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کئے اور یوں ایران اور یمن جیسے ممالک کے شہری بھی اب ویزا حاصل کرکے امریکہ کا سفر کرسکتے ہیں لیکن اُنہیں ویزے کی ضرورت ہوگی۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ بہت ہی احمقانہ پابندی تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ اس پابندی سے مسلم شدت پسندوں کو امریکہ آنے سے روکا جاسکے گا۔ کچھ ہفتے قبل مقامی امریکی دہشت گردوں نے امریکی سینیٹ کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ’مسلمانوں پر لگنے والی پابندیوں‘ کی کہانی ہمیشہ کیلئے ختم ہوگئی ہے ’مسلمانوں پر امریکہ کی عائد پابندیوں‘ کے خاتمے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکہ دنیا کیلئے اپنے دروازے کھول رہا ہے اگرچہ مسلمان تو پابندی سے آزادی حاصل کرچکے لیکن ایک نئی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ جنوبی افریقہ میں مقیم افراد جو امریکی شہری نہیں‘ وہ اب امریکہ نہیں آسکتے۔ یہ ایک ایسی پابندی ہے جس کا کچھ سال پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کے علاوہ برطانیہ‘ برازیل اور کچھ دیگر ممالک کے شہریوں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ مذکورہ پابندیوں کی روشنی میں مستقبل میں لگنے والی سفری پابندیوں کا خاکہ بنایا جاسکتا ہے۔ وہ ممالک جہاں کورونا کی ویکسین اور اس وائرس سے بچنے کی خاطر خواہ سہولیات موجود نہ ہوں اور جہاں موجود وائرس کی قسم موجودہ ویکسین سے ختم نہ ہوسکے‘ تو ان ممالک کے شہریوں کو مستقبل میں سفری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ویکسین کی دستیابی کے بعد بھی اس کی صلاحیت اور ممالک میں وائرس کے پھیلاؤ کی شرح بھی آمدورفت میں رکاوٹ بنی رہے گی۔ بائیڈن انتظامیہ نے ایک اور ابتدائی قدم اٹھاتے ہوئے کانگریس کو ایک نیا ایمیگریشن بل بھیجا ہے۔ اس بل کے مطابق نئی حکومت دیگر ممالک سے بڑے پیمانے پر افرادی قوت کو امریکہ لانے پر ہچکچاہٹ محسوس کررہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ بھی کچھ ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے بڑی تعداد میں ون بی ایچ ویزا رکھنے کی مخالف تھی۔ اس عمل کو قابو کرنے کے لئے انہوں نے اس کے طریقہ کار میں رکاوٹیں حائل کیں‘ کبھی اس پر مکمل پابندی لگادی اور کبھی پابندی ہٹالی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا غیر ملکی افراد کو وہ نوکریاں ملنی چاہئیں جو دراصل مڈل کلاس امریکیوں کے لئے ہیں؟ یہ سوال جتنا ٹرمپ انتظامیہ کے لئے مشکل تھا اتنا ہی بائیڈن انتظامیہ کیلئے بھی مشکل ہے۔ شاید اسی وجہ سے بائیڈن کی ایمیگریشن پالیسی کا مرکز ایک کروڑ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ بائیڈن انتظامیہ ان افراد کو معافی اور شہریت کے حصول کا آسان راستہ فراہم کرے گی۔ اس کے علاوہ بچپن میں غیر قانونی طور پر امریکہ لائے گئے افراد کیلئے بھی کوئی مستقل حل تلاش کیا جائیگا۔ ٹرمپ کی جانب سے پناہ کی درخواستوں پر عائد پابندی اور بچوں کو والدین سے الگ کرکے قید کرنا اب قانون نہیں رہا ہے۔ بائیڈن کا امریکہ اب وہ امریکہ نہیں ہوگا جہاں دنیا کے قابل ترین افراد آسانی سے ہجرت کرجائیں گے۔ امریکہ کو اس وقت وائرس اور اس کے نتیجے میں ہونے والی معاشی گراوٹ جیسے دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اسی طرح نوکریوں کی کمی کا مطلب یہ ہوگا کہ تارکینِ وطن اور غیر ملکیوں کو نوکریاں ملنا مشکل ہوجائے گا۔ غیر قانونی مہاجرین کو معافی ملنے سے امریکی شہریوں میں کروڑوں کا اضافہ ہوگا اور مہاجرین کیلئے ویزوں کا انتظار مزید طویل ہوجائے گا۔ اس وجہ سے ان لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا جو امریکہ آکر اپنے ویزے کی مدت بڑھوانے کے بجائے قانونی طریقے سے امریکہ جانا چاہتے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے امریکہ کو ماحول کے حوالے سے ہونے والے پیرس معاہدے اور عالمی ادارہ صحت کا دوبارہ حصہ بنادیا ہے۔ اس طرح کے اقدامات کا مقصد لبرل عالمی نظام میں امریکہ کو دوبارہ متعارف کروانا ہے تاہم نئی سفری پابندیاں عائد کرنا اور غیر ملکی مزدوروں کے لئے کچھ پرانی پابندیوں کو برقرار رکھنا اس بات کا اشارہ ہے کہ اب امریکہ ذہین ترین افراد کے لئے اپنے دروازے پہلے کی طرح کھلے نہیں رکھے گا۔ مسلمانوں پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا سے متعلق ٹرمپ کے بیانیے کا خاتمہ بلاشبہ ایک اچھی خبر ہے لیکن جو بائیڈن کا امریکہ عمل سے زیادہ نظریات میں مختلف ہوگا۔ وبا ء کی وجہ سے دنیا سکڑ کر رہ گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ایسا کوئی ماضی نہیں ہے جسے دوبارہ بحال کیا جاسکے۔ پاکستان کو بھی اب ایک ایسی دنیا کی لئے تیاری کرنی ہوگی جس میں خیالات کا آن لائن تبادلہ ہو۔ دنیا اب تبدیل ہورہی ہے۔ کورونا سے پہلے کی دنیا اب ہمیشہ کیلئے ختم ہوچکی ہے۔ جو کوئی بھی تیزی سے خود کو اس نئی دنیا کے مطابق ڈھال لے گا وہی اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے گا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رافعہ ذکریا۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)