آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی مشکلات و مسائل میں ہر دن اضافہ اور ہر دور میں اِن کے حل کے لئے وعدے و بیانات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے نامی منصوبے ہی کی مثال موجود ہے جس پر کام جاری ہے اور جس کے راستوں‘ بڑے نالوں یا ایسی دیگر جگہوں کے اردگرد رہنے والے شہریوں کےلئے موجودہ حالات بہت مشکل ثابت ہورہے ہیں۔ عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے حکام کے سرکلر ریلوے کا راستہ بنانے‘ نکاسی¿ آب کی خاطر نالے کی گہرائی اور چوڑائی بڑھانے کےلئے اردگرد مکانات و تجاوزات ہٹائی ہیں۔ حکام کی جانب سے متاثرین کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا وعدہ تو کیا گیا لیکن سرکلر ریلوے کے متاثرین کی اکثریت سخت سردی میں کھلے آسمان تلے بیٹھی ہے۔ سیاسی اعلانات کے باوجود متاثرین کو متبادل جگہ ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہی ہیں۔ کراچی میں جب بھی دوبارہ آباد کاری کے منصوبے شروع ہوئے تو ان کا انجام توقعات کے مطابق نہیں ہوا ہے۔لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کے دوران تقریباً ڈھائی لاکھ افراد بے گھر ہوئے‘ جن کےلئے کثیر رقم سے دوبارہ آبادکاری کا منصوبہ شروع ہوا لیکن کئی خاندانوں کو زمین نہیں مل سکی اور انہیں نقد رقم اور پلاٹوں کے حصول کی بے کار کوششیں کرنی پڑیں۔ وزیرِاعظم کی جانب سے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن اس منصوبے کی شفافیت پر تحقیقات کر رہا ہے چونکہ شہروں میں بسنے والے غریب افراد کو بسانے کےلئے کوئی باضابطہ زمین کا تعین نہیں کیا گیا ہوتا اس لئے کچی آبادیاں پروان چڑھتی ہیں اور ان میں سے اکثر کو بے دخلی کا خطرہ رہتا ہے۔ اگر بے دخل افراد کو کچھ مالی استطاعت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ اپنی پسند کی بستیوں میں رہائش اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ بحالی کا ایک ایسا طریقہ ہے جس کی قیادت خود عوام کرتے ہیں اور جسے حکام درست نہیں سمجھتے۔ لیکن کچی آبادیوں کا قیام حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہیں کیونکہ ایسے افراد کو بسانے کے لئے کوئی کوشش نہیں کی گئی ہوتی۔ بڑے شہروں میں رہائش کی معقول جگہیں نہ ہونے کی وجہ سے غریب افراد نالوں یا سرکلر ریلوے کی طرح کے ترک شدہ راستوں کے اطراف میں رہائش اختیار کرتے ہیں۔ گزشتہ حکومتوں نے ان افراد کی آبادکاری کے منصوبے تو شروع کئے لیکن وہ منصوبے ضرورت مند افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ ابتدا میں حکام نے ان بستیوں کو بلڈوز کرنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوگیا کہ یہ ناممکن کام ہے۔ اس کے بعد انہوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی کیونکہ لوگ اپنی مرضی سے کہیں بھی بس جاتے تھے اور یہ رجحان اب بھی جاری ہے۔ یہ رجحان ایک تجزیے کا متقاضی ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ شہروں میں ہر طرح کی آمدنی والے گروہ رہتے ہیں۔ وہ شہر جو صرف امیروں کےلئے بسائے جائیں بالآخر ناکام ہوجاتے ہیں۔ صحت مند شہروں میں غریبوں کو بھی ضروریاتِ زندگی تک آسان رسائی حاصل ہوتی ہے۔ یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ گزشتہ حکومتوں نے رہائشی سہولیات کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ مثال کے طور پر غریب پرور قانون سندھ ڈسپوزل آف لینڈ آرڈیننس 2002ءکا مقصد رہائش کے متلاشی افراد کو زمین فراہم کرنا تھا۔ مذکورہ قانون کے بعد زمین کی الاٹمنٹ کو ایک ادارے کی شکل دی گئی اور حکومت کے پاس موجود زمین کی الاٹمنٹ کے صوابدیدی اختیارات واپس لے لئے گئے۔ اس عمل کو سیاسی مراعات کے خلاف سمجھا گیا اور 2006ءمیں آرڈیننس کو واپس لے لیا گیااکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ غریب لوگوں کو رہائش کےلئے سبسڈی کی ضرورت ہوتی ہے اور حکومت مزید سبسڈی فراہم نہیں کرسکتی۔ یہ سچ نہیں ہے۔ غریب لوگ جہاں رہتے ہیں وہاں وہ ہر سہولت کےلئے رقم ادا کرتے ہیں چاہے وہ غیر رسمی طریقے سے ہی کیوں نہ ہو۔ رہائش حاصل کرنے کےلئے یہ غیر قانونی طور پر کاروبار کرنے والے افراد‘ تعمیراتی سامان فراہم کرنے والوں اور ٹھیکے داروں کو پیسے ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بااثر افراد کو بھی تحفظ فراہم کرنے کے عوض رقم ادا کی جاتی ہے۔ ان آبادیوں میں پانی کی فراہمی بھی ٹھیکے پر ہوتی ہے جس کے نرخ باقی شہر سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات تو غریب افراد اعلیٰ طبقے یا اوسط آمدن والے طبقے سے بھی زیادہ ادائیگی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں بغیر تاخیر کئے کئی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو کراچی شہر کا سروے کرکے رہائشی ضروریات کا اندازہ لگانے کی ضرورت ہے۔ اگر 2017ءکی مردم شماری کی تفصیلات جاری ہوجائیں تو اس سلسلے میں ضروری معلومات فراہم ہوسکتی ہیں۔ اس قسم کے سروے سے فیصلہ ساز افراد کو غریب اور کم آمدن والے افراد کی رہائشی ضروریات کے پیمانے کا اندازہ ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ کم آمدن والے افراد کی رہائش کےلئے زمین کی دستیابی کو جانچنے کےلئے بھی تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں انکریمینٹل ہاو¿سنگ ڈویلپمنٹ اختیار کی جاسکتی ہے۔ اس کام میں پہلی ترجیح ایسے افراد کو ملنی چاہئے جو شہر کے توسیعی یا مواصلاتی منصوبوں کی وجہ سے بے دخلی کا شکار ہوئے ہوں۔کراچی کے بے گھر افراد کی نظریں وفاقی حکومت پر ہیں جسے اس ضمن میں غریبوں کی مدد کےلئے پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر نعمان احمد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)