عوام کے منتخب وزیراعظم عمران خان آگ سے کھیل رہے ہیں جبکہ حزب اختلاف کی جماعتیں بھی آگ سے کھیل رہی ہیں۔ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ وہ حزب اختلاف کو بھسم کر دیں جبکہ حزب اختلاف کی جماعتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ وہ حزب اقتدار کو خاکسترکر دیں۔ اِن روئیوں کو اگر بغور دیکھا جائے تو یہ انتقامی ہیں سیاسی نہیں کہ جن میں ایک سیاسی سوچ دوسری سیاسی سوچ کو صرف سرنگوں ہی نہیں بلکہ اُس کا وجود تک ختم کر دینا چاہتی ہے۔ اِس انتقامی سیاست کا سلسلہ جس قدر جلد ختم ہو جائے اُتنا ہی بہتر ہوگا کیونکہ اِس پورے کھیل سے بائیس کروڑ (220 ملین) پاکستانیوںکو آسانیوں یا مراعات کی صورت کچھ حاصل وصول نہیں ہو رہا۔وزیراعظم عمران خان کی ذات اور تحریک انصاف کا دفاع کرنے والے جماعتی ترجمانوں کی ایک بڑی تعداد ذرائع ابلاغ کی حد تک حزب اختلاف کو بھسم کئے بیٹھے ہیں ۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اتحاد کر کے جو حکمت عملی ترتیب دی اُس کا حسب اعلان دوسرا مظاہرہ اجتماعی استعفوں کی صورت پارلیمان سے علیحدگی ہونا تھا لیکن کئی اعلانات اور حتمی تاریخیں گزرنے کے باوجود بھی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کے اجتماعی استعفے سامنے نہیں آئے جس کا مطلب ہے کہ اُن کی یہ حکمت عملی ناکام (flop) ہوئی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد کی دوسری حکمت عملی یہ تھی کہ وہ راولپنڈی میں احتجاجی مظاہرہ کریں گے اور دھرنا دیں گے لیکن اِس حکمت عملی پر عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ایمانداری سے بات کی جائے تو وزیراعظم عمران خان روایتی سیاست دان نہیں۔ اُنہیں حالات نے اِس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ اصولوں کے ذریعے اور جذباتی انداز سے قومی مسائل کو حل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ سیاست دان کا طریقہ (طرزعمل) مختلف ہوتا ہے اور وہ اپنے ساتھ نظریاتی اختلاف رکھنے والی جماعتوں کو بھی شامل رکھتا ہے۔ یہ عمل کچھ لو کچھ دو کے اصول پر ایک دوسرے کے مو¿قف کو تسلیم کرتے ہوئے درمیانی راستے کا انتخاب ہوتا ہے۔حزب اختلاف بعض باتوںمیں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے ‘سٹیبلشمنٹ ہمیشہ محتاط طرزفکروعمل سے کام لیتی ہے۔ ایک تو وہ اپنی ساکھ کے بارے میں سنجیدہ ہوتی ہے اور دوسرا وہ اپنے بارے میں اختلافی نکتہ¿ نظر سے محفوظ رہنا چاہتی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ سٹیبلشمنٹ ہمیشہ ثالثی کا کردار ادا کرتی رہی ہے اور سیاسی تاریخ میں ایسے کئی ایک واقعات ہیں جنہیں بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے کہ جہاں سٹیبلشمنٹ نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ حزب اختلاف کی سیاست میں آصف علی زرداری مرکز نگاہ ہیں۔ حزب اختلاف کی پہلی حکمت عملی (پلان اے) اور دوسری حکمت عملی (پلان بی) اگر ناکام ہو جاتے ہیں تو اِس کے بعد تیسری حکمت عملی (پلان سی) پر عمل درآمد ہوگا جو کہ یہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کا حصہ رہتے ہوئے حکومت کے لئے مشکلات پیدا کی جائیں۔ تیسری حکمت عملی میں حزب اختلاف کی قیادت نواز شریف سے آصف علی زرداری کو منتقل ہو جائے گی‘ جن کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ پارلیمانی سیاست کو زیادہ بہتر جانتے سمجھتے اور اُسے چلاتے ہیں۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ تحریک انصاف حکومت کو احتجاجی جلسے جلسوں سے ختم نہیں کیاجا سکتا اور نہ ہی حزب ِاختلاف کی جماعتوں میں اِس قدر توانائی و کشش ہے کہ وہ عوام کے جم غفیر کو جمع کر سکیں۔ تحریک انصاف کے لئے حقیقت میں 3 خطرات ہیں۔ نمبر ایک بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ نمبر دو بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور تیسرا بڑھتی ہوئی غربت۔ کیا اِن حقیقی خطرات سے حزب اختلاف فائدہ اُٹھا پائے گی اِس بات کا فیصلہ تو وقت سے ہوگا اور کیا پاکستان موجودہ سیاسی صورتحال سے نکل پائے گا‘ اِس بات کا فیصلہ بھی وقت ہی ثابت کرے گا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)