سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے حالیہ پیغام میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ”معاشی شعبے کے حوالے سے مزید اچھی خبریں آ رہی ہیں‘ مہنگائی میں کمی کی ہماری کوششوں کے بہترین نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ سی پی آئی اور بنیادی افراط زر اگست 2018ءسے بھی پہلے والی سطح پر آگئے ہیں۔ میں نے اپنی معاشی ٹیم کو چوکنا رہنے اور مہنگائی کنٹرول رکھنے کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ معاشی حوالے سے مزید خوشخبری ہے کہ گرانی میں کمی کے حوالے سے ہماری کاوشیں بارآور ہو رہی ہیں۔ کنزیومر پرائس انڈیکس اور کور انفلیشن آج اس سطح سے نیچے ہیں جس پر یہ ہمارے حکومت سنبھالنے کے وقت تھیں۔ میں نے اپنی معاشی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ محتاط رہیں اور یقینی بنائیں کہ مہنگائی پر قابو برقرار رہے۔“ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے بھی اپنے ٹوئٹر بیان میں کہا ہے کہ ”مہنگائی میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ جنوری میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر پانچ اعشاریہ سات فیصد ہے اور مہنگائی کی شرح تحریک انصاف حکومت کے اقتدار میں آنے کے وقت سے کم ہے۔“فیصلہ سازوںکو سمجھنا ہوگاکہ جب وہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں تو اِس سے مہنگائی میں بھی لامحالہ اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں حالیہ اضافہ گزشتہ دو ماہ میں پانچویں بار ہوا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کا یہ جواز پیش کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ دوسری طرف حزب اختلاف کی جماعتوں اور گڈز ٹرانسپورٹر کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات میں حالیہ اضافے کو مسترد کیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ ہوتا ہے تو روزمرہ اشیا کے نرخ بھی بڑھ جاتے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ اب تو پٹرولیم کی قیمت میں مسلسل پانچویں بار اضافہ کیا گیا ہے اور بجلی کے نرخ بھی روزافزوں بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں اگر قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوتا اور ناجائز منافع خور دم سادھے بیٹھے رہتے ہیں تو اسے کرشمہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ بجلی اور پٹرولیم کے نرخ بڑھانا حکومت کی مجبوری ہوسکتی ہے۔ ایسا اب ہی نہیں ہورہا‘ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ لوگ ان حکومتوں سے تنگ تھے۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی نسبت مہنگائی میں منافع خور مافیا من مانا اضافہ کرلیتا ہے۔ بجلی کے نرخ تو شاذ ہی کم ہوئے ہوں‘ پٹرولیم کے ضرور کم ہوتے رہے ہیں مگر اس تناسب سے مہنگائی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کبھی کمی نہیں آئی۔ اسے ماضی کی حکومتوں کی کمزور رٹ سے تعبیر کیا جاتا تھا۔تحریک انصاف سابق حکمرانوں کی نقاد ہے جن کی پالیسیوں کے نتیجہ میں عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھا اور روٹی روزگار کے مسائل گھمبیر ہوئے جن کے ممکنہ حل کے لئے فلاحی مملکت کی تشکیل کے عزم کا اظہار کیا گیا اور عوام کو غربت ‘ مہنگائی ‘ بے روزگاری کے مسائل سے نجات دلا کر انہیں ریلیف دینے کا پارٹی منشور مرتب کیا گیا۔ اسی طرح تحریک انصاف نے ”سٹیٹس کو“ توڑنے کا اعلان کرتے ہوئے سسٹم کی اصلاح کا بھی بیڑہ اٹھایا چنانچہ عوام نے انہیں مسیحا کی حیثیت میں سرآنکھوں پر بٹھایا اور دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات میں انہیں وفاقی اور صوبائی حکمرانی کے مینڈیٹ سے سرفراز کیا۔ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد عوام کا اپنے روزمرہ کے مسائل کے فوری حل کے لئے توقعات باندھنا فطری امر تھا۔ ایسے میںکورونا نے بھی معیشت کو زک پہنچائی۔ مہنگائی اور بیروزگاری کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ معیشت کو سہارا دینے کے لئے مجبوراً عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پاس بھی حکومت کو جانا پڑا۔ کورونا سے البتہ دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں انتہائی کمی ہوئیں۔ حکومت نے عوام کو اس کا بھرپور فائدہ پہنچانا چاہا مگر پیٹرولیم کے شعبے سے جڑے کاروباری مفادات رکھنے والوں (مافیاز) نے حکومت کی یہ کوشش بھی ناکام بنا دی اور عوام کو دیا گیا ریلیف واپس لینے پر مجبور کر دیا جس سے حکومتی رٹ بھی چیلنج ہوئی۔تحریک انصاف سے وابستہ توقعات تاریخ کی بلندترین سطح پر ہیں۔ حکومت اپنی نصف آئینی مدت مکمل کر چکی ہے اور اس دوران قیمتوں پر کنٹرول کرنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ بجلی کی پیداواری لاگت زیادہ ہے‘ پٹرولیم کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں اتار چڑھاو¿کے مطابق طے کی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے حکومت مجبور ہے۔ عام آدمی کو حکومت کی مجبوری سے زیادہ اپنی روٹی روزگار سے غرض ہوتی ہے۔ ماضی کی حکومتوں پر آج کے حکمران یہ کہہ کر طنز کرتے ہیں کہ تب مصنوعی طریقے سے مہنگائی کنٹرول کی جاتی تھی۔ اب مصنوعی طریقے نہ کریں کوئی مستقل لائحہ عمل اختیار کریں۔ ہر خرابی کا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال کر عوام کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعظم باربار معیشت کی مضبوطی کا دعویٰ کرچکے ہیں۔ اس میں سے کچھ حصہ عوام کے لئے بھی مختص کر دیں۔ مافیاز پر آہنی ہاتھ ڈالیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں بنائیں اور موجود ہیں تو ان کے منتظمین کو جگایا جائے۔ وزیراعظم کے بقول قیمتوں میں کمی کے بہترین نتائج سامنے آرہے ہیں۔ کنزیومر پرائس انڈیکس اور کورانفلیشن حکومت سنبھالنے والی سطح پر آچکا ہے لیکن جو بات اعدادوشمار سے ثابت ہو رہی ہے کہ ملک میں مہنگائی کم ہوئی ہے وہ عملاً نظر آتے ہوئے عام آدمی کو راحت محسوس ہونی چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ذاکر مشتاق۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)