سینٹ انتخابات اور سیاسی داﺅ پیچ۔۔۔

 سینیٹ اِنتخابات کو شفاف بنانے کےلئے رائے شماری سے متعلق قواعد میں تبدیلی ہی آسان اور فوری حل کی صورت تدبیر ہو سکتی ہے جس کی پہلی کوشش ناکام ہونے کے بعد حکومت صدراتی حکمنامے سے ایک ایسا قانون متعارف کروا سکتی ہے‘ جس سے سینیٹ اراکین کے انتخابات میں رائے شماری کا عمل خفیہ نہ رہے لیکن جمہوری نظام کی خوبصورتی یہی ہوتی ہے کہ ہر قانون سازی اور اصلاح کی کوشش بذریعہ پارلیمینٹ سرانجام پائے۔ عوام کےلئے یہ پوری صورتحال کسی تماشے سے کم نہیں جو اپنی ٹیلی ویژن سکرینوں پر قومی اسمبلی کے مناظر براہ راست دیکھتے ہیں جہاں سیٹیاں بج رہی ہوتی ہیں۔ اراکین زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔ کچھ نے احتجاج کرتے ہوئے اپنے مطالبات جلی حروف میں لکھوا کر اٹھا رکھے ہوتے ہیں۔ کچھ بے چینی کے عالم میں کھڑے تو کچھ اطمینان سے بیٹھے زیرلب مسکرا رہے ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی اجلاس کی کاروائی اور مسودہ قانون کو پھاڑ کر پرزے ہوا میں اُڑائے جاتے ہیں اور اِس پورے پارلیمانی ماحول میں جبکہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اور اسپیکر کو اپنی حفاظت کےلئے محافظوں کو طلب کرنا پڑتا ہے تو ٹیلی ویژن پر ایک ایسے وفاقی وزیر دکھائی دیتے ہیں جو پورے انہماک سے پارلیمان کے اندر جاری ہنگامے کی اپنے موبائل فون سے ویڈیو بنا رہے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اِس ویڈیو کو بعدازاں سالہا سال تک استعمال کیا جائے گا اور حزب ِاختلاف کی جماعتوں کو اُن کی کارکردگی اُس موقع پر دکھائی جائے گی جب وہ تحریک اِنصاف سے پارلیمانی روایات کی پاسداری کرنے کامطالبہ کریں گے! پاکستان میں جمہوریت ایک تماشے کی صورت جاری ہے کہ اِس میں ہر فریق عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ حکومت مخالف گیارہ جماعتوں کے اتحاد ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے غبارے میں سے ہوا نکل گئی ہے جبکہ حزب اختلاف کی جماعتوں اعلان کرتی ہیںکہ وہ متحد ہیں اور سینیٹ انتخابات میں مشترکہ طور پر حصہ لیں گی جبکہ چھبیس مارچ سے ملک گیر لانگ مارچ کا اعلان بھی کر دیا گیاہے اس اعلان کا مطلب یہ ہے کہ حزب اختلاف نے استعفوں کی سیاست کو فی الوقت ملتوی کر کے حکومت پر دباو¿ ڈالنے کےلئے ”نئی حکمت عملی“ بنائی ہے جس میں عام آدمی کو شریک کرنے کےلئے ’نام کی تبدیلی‘ جیسا شاطرانہ اقدام بھی کیا گیا ہے۔ چار فروری کو حزب اختلاف جماعتوں کا اجلاس پانچ گھنٹے جاری رہا جس کے بعد ’پی ڈی ایم‘ قیادت نے حکومت کی طرف سے سینیٹ انتخابات میں ”اوپن بیلٹ رائے شماری“ سے متعلق قانون کی مخالفت کا فیصلہ کیا۔ رات گئے پی ڈی ایم قیادت کی مختصر دورانیئے کی پریس کانفرنس (اعلانات) کے بعد وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے اسے ناٹک‘ غبارے سے ہوا نکلنے اور ڈرامے کی مختلف اقساط کا نام دیا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب ’پی ڈی ایم‘ نے استعفوں کا اعلان کیا تھا تو اُس وقت صرف حکومت ہی نہیں بلکہ آزاد تجزیہ کاروں نے بھی کہا تھا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ حزب اختلاف کی جماعتوںکا اتحاد ’بادبانی کشتی‘ ہے جو ہچکولے کھا رہی ہے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی ’پی ڈی ایم‘ کا حصہ ہے لیکن دیگر جماعتیں احتجاجی سیاست کو آگے بڑھانے کےلئے الگ سے مشاورت سے کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکمت عملی تبدیل کی گئی ہے تاکہ ’پی ڈی ایم‘ کو برقرار رکھا جا سکے اور اِس میں پھوٹ کی حقیقت ظاہر نہ ہو۔ حکومت کو یہ بنیادی نکتہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ حزب اختلاف کو یہ جمہوری و آئینی حق حاصل ہے کہ وہ احتجاج کرے اور اِسی حق کو استعمال کر رہی ہے لیکن جب قومی اسمبلی اور سینیٹ کی ورکنگ چل نہیں رہی تو اس کے بعد کے آپشنز کیا ہوں گے؟ چھبیس مارچ کا لانگ مارچ اپوزیشن کےلئے چیلینج ہو گا کہ وہ کتنی تعداد میں لوگوں کو لے کر جاتے ہیں جبکہ حکومت کےلئے اِس سے بڑا چیلینج امن و امان کو قائم رکھنے کا ہو گا۔ پی ڈی ایم جس دوسرے محاذ پر حکومت پر دباو¿ ڈال رہی ہے وہ سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلیٹنگ کی مخالفت ہے۔ سیاسی جماعتیں بظاہر اوپن بیلیٹ پر اتفاق کرتی ہیں کہ یہی سودمند ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب سیاسی قیادت تقسیم ہوتی ہے اور ہر طرف لڑائی ہی لڑائی ہو‘ اسمبلی میں بات بھی نہ ہو‘ جو گرفتار اراکین اسمبلی ہیں ان کو سپیکر نہ بلائیں تو پھر سیاسی قیادت صلح کیسے کرے گی اور قانون کس طرح منظور ہوں گے! پاکستان کی سیاست دو حصوں میں تقسیم ہے اور اِس سیاست کا ایک حصہ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں سیاست دانوں نے اپنے انتخابی حلقوں کے اندر بھی سیاست کرنا ہوتی ہے اور یہ سب الگ الگ موضوعات ہیں جنہیں ایک ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں اگر متحد ہو کر سینیٹ انتخاب میں حصہ لیتی ہیں اور اُنہیں توقعات سے زیادہ سینیٹ کی نشستیں بھی مل جاتی ہیں تو یہ حکومت کےلئے زیادہ بڑا دھچکا ہوگا اور حزب اختلاف کےلئے کسی احتجاجی تحریک کی کامیابی سے زیادہ بڑی کامیابی ہوگی۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: واجد علاو¿الدین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)