امریکی صدر جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے خارجہ پالیسی پر پہلی تقریر کی ہے اور انہوں نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’امریکہ فرسٹ‘ ایجنڈے کے چار برسوں کے بعد اسے ’ریسیٹ‘ کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے اتحاد اور سفارت کاری میں دوبارہ سرمایہ کاری اور جمہوری اقدار کی بحالی پر زور دیا۔ بائیڈن نے اپنی تقریر کے شروع میں ہی میں روس سے متعلق ایسا بیان دیا جس سے شہ سرخی بن سکتی ہے ”میں نے صدر (ولادیمیر) پوتن پر واضح کر دیا ہے کہ میرے پیشرو کے برعکس امریکہ کے روس کی جارحانہ کاروائیوں کے سامنے خاموش رہنے کے دن اب ختم ہو چکے ہیں۔“ یہ ٹرمپ سے بہت زیادہ متضاد بیان ہے‘ جو کہ لگتا تھا کہ روسی صدر پر تنقید کرنے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ بائیڈن نے ماسکو کے ساتھ باہمی مفادات کے شعبوں‘ جیسا کہ ایٹمی جنگ کی روک تھام کے سلسلے میں بات چیت کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ دونوں رہنماؤں نے اسلحے پر قابو پانے کے اپنے آخری معاہدے میں توسیع کرنے پر حال ہی میں اتفاق کیا ہے تاہم انہوں نے عہد کیا کہ سائبر حملے اور انتخاب میں مداخلت پر ولادمیر پوٹن کا محاسبہ کیا جائے گا۔ انہوں نے روس کی حزبِ مخالف کے رہنما الیکسی نوالنی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ انتظامیہ کریملن کے خلاف کسی بھی قسم کی بات کرنے کیلئے تیار نظر آتی ہے جسے امریکی سیاسی زبان میں ’بُلی پرمٹ‘ بھی کہا جاتا ہے تاہم بائیڈن جو بھی اقدامات کریں گے وہ ان اقدامات پر ہی مبنی ہوں گے جو ٹرمپ انتظامیہ نے لئے تھے اور جس نے ٹرمپ کی خاموشی کے باوجود سائبر حملوں سے لے کر زہر آلود حملوں تک ہر چیز پر روس کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ہم ممکن کوشش ہوتی تھی کہ صدر پوٹن پر تنقید سے گریز کیا جائے۔بائیڈن کی تقریر میں جو کچھ نہیں کہا گیا وہ بھی کافی اہمیت کا حامل ہے مثلاً انہوں نے ایران کے متعلق اشارہ تک نہیں کیا۔ اس کے متعلق خاموشی تو تقریباً چکرا دینے والی ہے کیونکہ ٹرمپ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو تو تہران کو مشرق وسطیٰ میں تمام برائیوں کی جڑ بتایا کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ایران کو ایسا معاملہ نہیں سمجھتی جس کے متعلق کچھ کرنے کی فوری ضرورت نہیں ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ ٹرمپ کے ایران کے جوہری پروگرام پر پابندی لگانے والے معاہدے سے باہر نکلنے کے اقدام کے بعد اسلامی جمہوریہ اس مقام کے کافی قریب آچکا ہے جہاں وہ جوہری بم بنا سکتا ہے اور بائیڈن کہتے ہیں کہ وہ اس معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ان کی انتظامیہ ابھی تک یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ ایسا کیسے کیا جا سکتا ہے لیکن اس وقت وہ خطے کو ایران کی روشنی میں نہیں دیکھ رہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے یمن میں سعودی عرب کی فوجی کاروائی کی حمایت کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ پومپیو نے زور دے کر کہا تھا کہ یمن کے حوثی باغی‘ جن کے خلاف سعودی عرب لڑ رہا ہے‘ انہیں ایران کی حمایت حاصل ہے۔ بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ نے دنیا کا بدترین انسانی بحران پیدا کر دیا ہے۔ بائیڈن چاہے ٹرمپ کی طرف سے بار بار بتائے جانے والے ’دنیا میں امریکہ کے مقام‘ کے بارے میں متفق نہ ہوں لیکن پھر بھی وہ امریکیوں کو سب سے پہلے ہی رکھتے ہیں‘ وہ اور ان کے سرکاری اہلکار ایسی خارجہ پالیسی کی بات کرتے ہیں جس سے امریکی ورکرز کو فائدہ ہو‘ جو ان کی ملازمتوں اور اجرتوں کا تحفظ کرے۔ بائیڈن نے اپنی تقریر میں کہا کہ خارجہ اور داخلی پالیسی کے درمیان اب کوئی روشن لکیر موجود نہیں ہے۔ ’اپنے عمل کے حوالے سے بیرون ملک ہم جو بھی اقدام اٹھائیں‘ ہمیں امریکی ورکنگ فیملیز کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔‘ اس سے ان کی تجارتی پالیسیوں پر اثر پڑے گا۔ وہ امریکہ کے اس ویژن پر بھی واپس آ گئے ہیں کہ امریکہ تارکین وطن کا ایک ملک ہے اور انہوں نے مزید پناہ گزینوں کو قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ ان کی تعداد کو بڑھا کر ایک لاکھ پچیس ہزار سالانہ کر دیں گے جبکہ ٹرمپ نے اپنے دورِ حکومت میں اسے گھٹا کر پندرہ ہزار کر دیا تھا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی طرف سے الیکشن فراڈ کے الزامات کے بعد ہونے والے تشدد کا ایک مثبت پہلو نکالتے ہوئے کہا کہ امریکی ’جمہوریت کے دفاع کیلئے دنیا کو اکٹھا کرنے کیلئے اب بہتر انداز میں تیار ہیں کیونکہ ہم نے خود اس کیلئے لڑائی کی ہے۔‘ وزیرِ خارجہ اینٹونی بلنکن دو دہائیوں سے جو بائیڈن کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے جس سرکاری ادارے کا پہلا دورہ کیا تھا وہ سی آئی اے تھا اور وہ اقتدار سنبھالنے کے تقریباً ایک سال کے بعد ہی محکمہ خارجہ گئے تھے۔ بائیڈن کا محکمہ خارجہ سے دوروں کا آغاز کرنا بھی خارجہ امور کے افسران کی حمایت کی طرف ایک طرح کا اشارہ ہے‘ جنہیں ٹرمپ ’ڈیپ سٹیٹ‘ کا ایک حصہ سمجھتے تھے جو ’انہیں کمزور کرنے کیلئے تھا۔‘ دنیا کیلئے امریکہ اب ’واپس‘ آ گیا ہے‘ جو اپنے اتحادیوں کے ساتھ کثیر الجہتی ماحول میں باہمی مسائل سے نمٹنے کیلئے اپنی مصروفیت دوبارہ شروع کرنے کیلئے تیار ہے اور یہ بائیڈن ٹیم کا ایک نعرہ بھی بن گیا ہے لیکن یہ دورہ اس بات کا بھی مظہر تھا کہ بائیڈن کون ہیں‘ ایک ایسے سابق سینیٹر اور نائب صدر‘ جن کے پاس کئی دہائیوں کی خارجہ پالیسی کا تجربہ ہے۔ بائیڈن کے وزیرِ خارجہ اینٹونی‘ جو ان کے ساتھ قریب بیس سال سے کام کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ ”میں ابھی بھی ان کے ساتھ چلنے کی کوشش کر رہا ہوں۔“ بائیڈن اپنی خارجہ پالیسی میں کتنے کامیاب ثابت ہوں گے‘ اِس بات کا فیصلہ وقت کرے گا لیکن کوئی ایک بھی آزاد تجزیہ کار ایسا نہیں جو یہ سمجھتا ہو کہ وہ خارجہ پالیسی کے محاذ پر ناکام ہوں گے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر مجاہد واصف۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)