دسمبر 2020ءمیں امریکہ نے چین پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ مشینی افرادی قوت میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اُس نے تجرباتی طور پر ایسا فوجی تیار کر لیا ہے جو دفاعی مہمات میں حصہ لیں گے اور اِن مشینوں کو ’سپر سولجرز‘ کا نام دیا گیا۔ اِس خبر کے 2 ہفتے بعد فرانس کے حوالے سے اطلاعات آئیں کہ اُس نے بھی ’سپر سولجر‘ تیار کر لئے ہیں اور یوں ایک نئے دور اور نئی جنگی تہذیب کا آغاز ہو گیا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا چین ’کیپٹن امریکہ‘ نامی فلمی کردار کی طرز پر فوجی تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ امریکی خفیہ ادارے تو ایسا ہی کہتے ہیں تاہم جو جوش ’سپر سولجر‘ کے تصور کے بارے میں پایا جاتا ہے وہ زیادہ عجیب نہیں اور اس میں چین کے علاوہ بھی کئی ممالک کی دلچسپی ہے۔ وسائل کی فراوانی اور دیگر عسکری دستوں پر سبقت حاصل کرنے کی خواہش نے دنیا بھر کی فوجوں کو ٹیکنالوجی کے ذریعے نیا اسلحہ بنانے کی طرف راغب کیا ہے۔ سال دوہزار چودہ میں ایک نئے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے امریکہ کے صدر باراک اوباما نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’میں یہاں اس بات کا اعلان کرنے آیا ہوں کہ ہم آئرن مین بنانے جا رہے ہیں۔‘ اُن کی اِس بات پر قہقہے سنائی دیئے لیکن امریکی صدر سنجیدہ تھے۔ امریکی فوج نے مذکورہ (آئرن مین) منصوبے پر کام شروع کر دیا تھا جو دراصل ’ٹیکٹیکل اسالٹ لائٹ آپریٹر سوٹ (ٹیلوس)‘ کہلانے والا ایک خاص قسم کا حفاظتی لباس ہے۔ اس لباس کی وضاحت (تشہیر) کے لئے بنائی جانے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مذکورہ لباس کو پہننے والے کردار کو دشمن کے وار کا خوف نہیں رہتا اور وہ دشمن کے مورچوں میں گھس کر وار کرتا ہے کیونکہ گولیاں اور بارود اُس کے جسم کو لباس کی وجہ سے دفاعی ڈھال فراہم کر رہی ہوتی ہیں تاہم امریکہ کا مذکورہ ’آئرن مین‘ نہ بن سکا۔ پانچ برس کے بعد یہ منصوبہ اپنے اختتام کو پہنچا لیکن اسے بنانے والوں کو امید ہے کہ وہ تحقیق جاری رکھیں گے اور اس میں استعمال ہونے والی ذہانت اور وسائل (پرزے) کسی دوسرے ایسے ہی منصوبے میں کام آ جائیں گے۔ ’ایگزو سکیلیٹنز‘ ان متعدد ٹیکنالوجیز میں سے ہیں جن پر دنیا بھر کی افواج کام کر رہی ہیں تاکہ اپنے فوجیوں کی صلاحیتوں میں جدت لائی جا سکے۔ فوجی اداروں میں جدت کا حصول کوئی نئی بات نہیں۔ زمانہ قدیم میں بھی فوجیں اسلحہ‘ لباس اور تربیت میں جدت لانے کی کوشش کرتی رہی ہیں تاہم آج جدت کا مطلب ایک فوجی کو بہتر بندوق دینے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ایک فوجی میں تبدیلی لانا بھی ہو سکتا ہے۔سال2017ءمیں روسی صدر ولادیمر پوٹن نے خبردار کیا تھا کہ شاید انسان جلد کچھ ایسا ایجاد کر دے جو ’ایک جوہری بم سے کہیں زیادہ خطرناک‘ ہو۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ انسان شاید ایک ایسا انسان ایجاد کر دے جس میں کچھ خصوصیات ہوں‘ نہ صرف مفروضے کی حد تک بلکہ حقیقت میں بھی۔ وہ کوئی شاندار ریاضی دان بھی ہو سکتا ہے‘ ایک بہترین گلوکار بھی یا ایک ایسا فوجی جو بغیر کسی خوف‘ ہمدردی‘ افسوس اور درد کے لڑ سکے۔“ گزشتہ برس امریکہ کے ڈائریکٹر برائے نیشنل انٹیلی جنس (ڈی این آئی) جان ریٹکلف چین پر الزام لگانے میں ایک قدم آگے چلے گئے تھے۔ انہوں نے امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل میں لکھتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’چین نے پیپلز لبریشن آرمی کے فوجیوں پر ٹیسٹنگ کا عمل شروع کر دیا ہے جس کے تحت فوجیوں کی صلاحیتوں کو بائیولاجیکلی بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور چین کے سامنے زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کے لئے کوئی اخلاقی حدود نہیں ہیں۔‘ چین کی جانب سے اس تحریر کو ’جھوٹ کا پلندا‘ قرار دیا گیا ہے۔ نئے امریکی صدر ’جو بائیڈن‘ کی انتظامیہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایجنڈے کے اکثر نکات کو تبدیل کر دیا ہے تاہم چین کے ساتھ تناو¿ مستقبل میں بھی امریکی خارجہ پالیسی کا جز رہے گا یقینا دنیا بھر کی افواج یہ چاہیں گی کے ان کی صفوں میں ’سپر سولجر‘ موجود ہوں جن کی کارکردگی بیماری‘ درد‘ شدید سرد یا گرم موسم اور نیند جیسی انسانی ضروریات کی وجہ سے محدود نہ ہو پائے تاہم امریکہ کی جانب سے ’آئرن مین‘ بنانے کی ناکام کوشش سے دنیا کو یہ سبق ملا ہے کہ ٹیکنالوجی میں سقم ایسے عزائم کو ختم یا خطرناک بنا سکتا ہے۔ سال 2019ءمیں دو امریکی محققین کی جانب سے کی گئی تحقیق میں کہا گیا تھا کہ چینی فوج ’جینیاتی تبدیلی‘ ایگزوسکیلیٹنز اور انسان و مشین کی شراکت جیسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہے تاہم یہ رپورٹ بنیادی طور پر چینی منصوبہ سازوں کی جانب سے دیئے گئے بیانات پر مبنی تھی۔ امریکہ کےلئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ چینی فوج کے مقاصد کو سمجھے کہ وہ بنا رہے ہیں اور کیوں بنا رہے ہیں لیکن یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹیکنالوجی کیا کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دنیا بھر ’سپر سولجر‘ کا تصور خاصا دلچسپ ہے اور اِسے بغور دیکھا جا رہا ہے تاہم آخر کار وہی ہو سکتا ہے جو سائنسی اعتبار سے ممکن ہو‘ چاہے وہ کوئی بھی کر رہا ہو۔ اِس مرحلہ¿ فکر پر سوال یہ نہیں ہے کہ کیا ایسا ممکن بھی ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا سائنسدان انسانوں میں جنیاتی تبدیلیوں کےلئے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی محفوظ ہے اور کیا سائنسدان اِس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جینیاتی تبدیلی کی تکنیک کے ذریعے زراعت اور ’ٹرانس جینکس‘ کے شعبوں میں تحقیق و ترقی ہو رہی ہے تاہم مذکورہ دونوں کے مرکب کے انسانوں پر استعمال کے متعلق اخلاقی اعتبار سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ سال دوہزاراٹھارہ میں چینی سائنسدان نے ایک حیران کن اعلان کیا اور بتایا کہ انہوں نے ماں کے پیٹ میں موجود دو جڑواں بچیوں کے ڈی این اے میں تبدیلی کر کے انہیں ممکنہ طور پر ایچ آئی وی کا شکار ہونے سے محفوظ کر دیا ہے تاہم اس پیشرفت کے بعد خاصہ غم و غصہ پایا گیا۔ ایسی جینیاتی تبدیلی پر متعدد ممالک میں پابندی لگائی جا چکی ہے جس میں چین بھی شامل ہے۔ اس کا استعمال صرف ’آئی وی ایف ایمبریوز‘ میں کرنے کی اجازت ہے اور وہ بھی اس وقت جب انہیں فوراً تلف کر دیا جائے اور بعد ازاں بچہ بنانے میں استعمال نہ کیا جائے۔ اس سائنسدان نے اپنے ’کارنامے‘ کا دفاع کیا تاہم حکومت کے احکام کی خلاف ورزی کرنے پر انہیں جیل جانا پڑا۔ کرسپر ٹیکنالوجی کے استعمال سے دو جڑواں بچوں کے ڈی این میں رد و بدل کیا گیا جو انسانی جسم کے خلیوں میں موجود ڈی این اے میں خاص تبدیلی لانے کا ذریعہ ہے اور اس طریقے سے انسان کے اندر پائی جانے والی کچھ فطری خصوصیات کو نکالا اور کچھ کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ سائنسدان خاصے پراُمید ہیں کہ وہ جینیاتی طور پر منتقل ہونے والی موروثی بیماریوں کا علاج ڈی این اے میں تبدیلی کے ذریعے کر لیں گے اور یہ طریقہ بہت جلد عام ہو جائے گا جس کے بعد ہر انسان ’سپر ہیومن‘ اور ہر فوجی ’سپر سولجر‘ کہلائے گا۔ (بشکریہ: گارڈین۔ تحریر: تھام پول۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)