پشاور: پشاورہائی کورٹ کے جسٹس سیدارشدعلی اورجسٹس نعیم انورپرمشتمل دورکنی بنچ نے خیبرپختونخواریونیواتھارٹی کی جانب سے صوبے سے باہر خدمات انجام دینے والے افراد اوراداروں پرسروسزٹیکس لاگوکرنے کے خلاف دائررٹ پرٹیکس کی وصولی روک دی اوراتھارٹی سے جواب مانگ لیاہے
فاضل بنچ نے قاضی غلام دستگیرایڈوکیٹ کی وساطت سے نجی ٹوبیکوکمپنی کی جانب سے دائررٹ کی سماعت کی ،
عدالت کو بتایاگیاکہ خدمات کی فراہمی پرصوبوںنے اٹھارویں ترمیم کے بعد ٹیکس نافذ کیااورچاروں صوبوں نے علیحدہ علیحدہ قوانین وضع کئے
عدالت کو بتایاگیاکہ خیبرپختونخواحکومت نے جوقانون سازی کی اس میں واضح ہے کہ صوبے کے اندرخدمات کی فراہمی پرٹیکس وصول کیاجائے گا
تاہم بعدازاں2020ءمیں اس قانون میں ایک ترمیم لائی گئی جس کے تحت صوبے سے باہر خدمات فراہم کرنے والے افراد اوراداروں پر ایک ٹیکس نافذ کیاگیااوراس کے لئے لفظ delieverdکااستعمال میں لایاگیاتاکہ ایسے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایاجاسکے
تاہم حکومت کے اس قسم کے اقدامات کی آئینی حیثیت نہیں ہے کیونکہ پہلے قانون میں یہ واضح ہے کہ جوبھی خدمات ہوں گی اس پرٹیکس وصولی صوبے کے اندرہی ہوگی اور صوبائی حکومت کایہ اقدام ماورائے قانون ہے پوری دنیامیں اس قسم کاقانون ختم کیاجارہا ہے
جبکہ صوبے میں اس قسم کاقانون نافذ کیاجارہا ہے جس سے صوبے سے باہر خدمات فراہم کرنے والے اداروں اورافراد کی حوصلہ شکنی ہوگی اورانہیں دوہراٹیکس ادا کرناہوگا جودرست نہیں۔
علاوہ ازیں خیبرپختونخواکے ٹیکس قانون میں یہ بھی نافذ کیاگیاہے کہ متعلقہ ادارے ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کریں گے جس میں ان کاکردارایک ایجنٹ کاہوگا
عدالت نے ابتدائی دلائل کے بعد صوبے سے باہر خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے خلاف کارروائی اورٹیکس نوٹسزپرعملدرآمد روک دیااورریونیواتھارٹی اورخیبرپختونخواحکومت سے جواب مانگ لیا۔