مشرق وسطیٰ: تبدیلی کا نیا دور

مصر کے صدر حسنی مبارک کے خلاف دس برس قبل ہوئے احتجاجی مظاہروں نے انقلاب کی شکل اختیار کر لی تھی‘ابتداء میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان آنکھ مچولی ہوئی اور مظاہرین دریائے نیل کے ایک جانب جسے شہر کا دل سمجھا جاتا ہے ’تحریر سکوائر (چوک)‘ پر اکٹھا ہونے لگے۔ ٹھیک دس برس قبل حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ الٹا تو یہ خبر تحریر سکوائر میں موجود ان ہزاروں مظاہرین کے درمیان گونجی جو گزشتہ اٹھارہ دن سے صدر کے حامیوں سے لڑ رہے تھے۔ اُس رات کے دوران تحریر سکوائر کے آس پاس مظاہرین اور پولیس کے درمیان پرتشدد واقعات کی آوازیں گونجتی رہی اور پھر حکومت کی جانب سے کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ ایک عجیب اور پرتشدد دن مظاہرین پر اونٹ سوار افراد نے بھی حملہ کیا۔ مصر میں اُٹھنے والے اُس انقلاب کا کوئی حقیقی رہنما نہیں تھا‘ جو اسے جمہوری اور مقبول بناتا اور یہی وجہ تھی کہ وہ انقلاب ناکام رہا۔ وہ نوجوان جو مظاہروں کے دوران سامنے آئے تھے وہ اپنے آپ کو منظم کر کے ایک سیاسی قوت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ سال 2012ء میں آزادانہ صدارتی انتخاب میں دو جماعتوں کے امیدواروں کے درمیان سیاسی لڑائی دیکھنے میں آئی جنہیں انتخابی میدان میں مصر کے دو منظم گروہوں نے اتارا تھا۔ ان میں سے ایک جماعت اخوان المسلمین تھی انہوں نے سوچا بر ان کا وقت آ گیا ہے۔ دوسری طرف مصری فوج تھی‘ جس نے اُنیس سو باون میں اپنے آپ کو فری آفیسرز کہلانے والے گروپ کے بعد سے مصر پر کنٹرول کیا تھا۔ مصر کی جماعت اخوان المسلمین نے انتخاب جیتا لیکن ان کا دور حکمرانی زیادہ کامیاب نہ تھا اور اُنہوں نے تیزی سے ان مصریوں کو تنہا کر دیا جو ان کے حامی نہیں تھے۔ حکومت کو کمزور کرنے کے لئے وہ سب کچھ کیا گیا جس کے نتیجے میں مصر عدم استحکام اور تشدد میں ڈوبتا چلا گیا اور آخر کار 2013ء میں اقتدار پر قبضہ کر لیاگیا۔ ایک اندازے کے مطابق دو ہزار چودہ کے آغاز میں دو ہزار سے زیادہ افراد جن میں بیشتر عام شہری شامل تھے‘ ملک میں سیاسی لڑائی کے باعث ہلاک ہو گئے۔ اس سیاسی عدم استحکام اور لڑائی میں کم از کم نوسو افراد ہلاک ہوئے۔ تب سے مسلح افواج نے مصر پر اپنا کنٹرول مستحکم کر لیا ہے۔ ان کے رہنما فیلڈ مارشل عبدالفتح السسی مصر کے صدر ہیں انہوں نے مصر کو حسنی مبارک کے دور کے مقابلے میں ایک زیادہ جامع ریاست میں تبدیل کر دیا۔ ہزاروں مصری شہریوں کو صدر کا مذاق اڑانے سے لے کر حکومت کی مخالفت کے الزام میں جیل میں ڈال دیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ان مقدمات کو غلط قرار دیئے جانے کے باوجود سینکڑوں افراد کو سزائے موت دے دی گئی۔تیونس کے انقلاب کے چند دن بعد مصر کے حکمران حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ دوہزار گیارہ کے آغاز میں مصر میں ہونے والے واقعات نے ہفتوں میں مشرق وسطیٰ میں انقلابوں کو جنم دیا۔ اس انقلاب نے سب کچھ بدل دیا لیکن اس طرح نہیں جس طرح مظاہرین آزادی اور حکومتوں کے خاتمے کی امید لگائے نعرے لگاتے تھے۔ طاقتور افراد نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ جمایا‘ ہزاروں افراد اس انقلاب میں ہلاک اور لاکھوں گھروں سے محروم ہوگئے ہیں۔ مشرق وسطیٰٰ تبدیلی کے ایک طویل اور مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ دوہزارگیارہ کے انقلاب میں ایسے نوجوانوں کا غصہ اور اضطراب شامل تھا جو کرپشن‘ بے روز گاری اور اپنے حقوق سلب کرنے سے اُکتا چکے تھے۔ یہ تمام محرومیاں آج بھی موجود ہیں۔  تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک جبر خوف پر قابو نہیں پاتا‘ تب تک کام کرتا ہے لیکن اگر ایک بار صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے تو پھر کوئی بھی حربہ کامیاب نہیں ہوتا۔ (بشکریہ: گارڈین۔ تحریر: جرمی بووون۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)