ہنرمندی: چارسدہ کا کھدر۔۔۔

خیبر پختونخوا کا ضلع چارسدہ ہاتھ سے بنے کھدر کے لئے مشہور ہے۔ کھدر کپڑے (پارچہ جات) کی ایک خاص قسم ہے جسے کھڈی پر تیار کیا جاتا ہے اور یہ کپڑا صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی مقبول ہے۔ کھدر کو ’پشتون ڈینم‘ بھی کہا جتا ہے کیونکہ اِسے دیگر کپڑوں کے مقابلے دھونے کے بعد استری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مقامی لوگ اِسے ’خمتا‘ کہتے ہیں جو بنا لوازمات ”واش اینڈ وئر (دھونے اور پہننے)“ کے لئے ہوتے ہیں۔ چارسدہ کے علاقے رجڑ میں چھوٹی صنعتیں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہاں لکڑی سے بنی کھڈیوں پر دھاگے اور سوئیاں سے کپڑا تیار ہوتا ہے‘ جو مقامی ہنرمند تیار کرتے ہیں۔ ہاتھ سے چلنے والی روایتی کھڈی کی تیاری پر دس سے پندرہ ہزار روپے جبکہ مشینی کھڈی پر ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔کھدر کی صنعت پختونوں کے طرز حیات جسے پشتون ولی کہا جاتا ہے کا حصہ ہے۔ کھدر یا کھڈی کو پوری پشتون بیلٹ میں خمتا کہتے ہیں جس کا ذکر پشتو شاعری میں بھی ملتا ہے۔ مشہور پشتو شاعر خوشحال خان خٹک کی نظم میں اس کا ذکر یوں آیا ہے کہ ”منفرد بہتر نظر آنے کے لئے خمتا پہنو.... چاہے کوئی بھی رنگ ہو‘ اس نرم....ریشم کی مانند کپڑے کو پہنو۔“ روایتی طور پر خمتا صرف ہاتھوں سے چلنے والی کھڈیوں پر تیار ہوتا ہے جو ایک مشقت طلب کام ہے۔ کاریگر اپنے دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں کی مدد سے کھڈی کو چلاتے تھے۔ بعد میں ان کی جگہ بجلی کی مدد سے چلنے والی مشینی کھڈیوں نے لی جس کی وجہ سے چند گنتی کے کاریگر ہی ہاتھ سے کپڑا تیار کرتے ہیں۔ باقی تمام کپڑا مشینوں سے تیار ہونے لگا ہے۔ ہاتھ کی کھڈی پر ایک شال تیار کرنے میں کم از کم ایک ہفتہ لگتا ہے جبکہ بجلی سے چلنے والی کھڈی یہی کام چند گھنٹوں میں ہو جاتا ہے لیکن ہاتھ سے تیار کردہ کھدر کی اپنی الگ مانگ اور الگ قیمت ہے۔ ہاتھ کی بنی شال کی قیمت تین سے دس ہزار روپے تک ہوتی ہے کیونکہ اسے تیار ہونے میں وقت لگتا ہے اور اس میں اچھے معیار کا اون یا دھاگہ استعمال ہوتا ہے جبکہ مشین سے بنی شال کی قیمت پانچ سو سے دو ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ ہاتھ کی کھڈی پر دن بھر میں تین شلوار قمیضیں تیار ہوتی ہیں جبکہ بجلی سے چلنے والی کھڈی دن میں پندرہ سے بیس سوٹ کپڑا تیار ہو سکتا ہے۔ نئی نسل مشین سے تیار ہونے والے کپڑے ہی کو پسند کرتے ہیں کیونکہ اس کی بُنائی زیادہ باریک اور دیکھنے میں نفیس ہوتی ہے۔ کاروبار میں زیادہ منافع کےلئے کاریگر بجلی کی کھڈیاں لگانے میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ ان کی محنت اور وقت کی بچت ہوسکے۔ ایک بجلی کی کھڈی لگانے میں تقریباً ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ آتا ہے اور یہ سرمایہ کاری اپنی جمع پونجی سے کی جاتی ہے۔ اگر خیبرپختونخوا حکومت ضلع چارسدہ اور مردان کے مختلف حصوں بالخصوص رجڑ میں کپڑے کی تیاری کی صنعت کی سرپرستی کرے تو یہ خیبرپختونخوا کا فیصل آباد بن کر اُبھر سکتا ہے اور خیبرپختونخوا میں کپڑے کا یہ روایتی کاروبار سیاحتی کشش کا باعث بھی ہوگا‘ جسے دیکھنے کےلئے اندرون و بیرون ملک سے لوگ اِن علاقوں کا رخ کریں گے۔ چارسدہ کے رجڑ گاو¿ں پہنچنے کےلئے موٹر وے (ایم ون) کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مشینی کھڈی کے ذریعے کپڑا تیار کرنے والوں کےلئے بجلی کی لوڈشیڈنگ پریشانی کا باعث بنتی ہے جس سے باآسانی نمٹا جا سکتا ہے اور شمسی توانائی کے استعمال سے کپڑے کی لاگت میں بھی نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے لیکن یہ اور اِس طرح کی دیگر اصلاحات صرف اُسی صورت کارآمد ہوں گی جب حکومت توجہ دے اور رجڑ کے محنت کش ہنرمند توقع رکھتے ہیں کہ تحریک انصاف روایتی ہنرمندی کے فروغ کی جانب بھی توجہ مبذول کریں گے۔ رجڑ کی روایت چرخہ ہے جو لڑکیوں کو جہیز میں بھی لازماً دیا جاتا تھا تاکہ وہ اپنے گھر میں فارغ اوقات میں کچھ نہ کچھ محنت مزدوری کر سکیں لیکن اب یہ روایت تاریخ کا حصہ بن چکی ہے اور انسانی ہاتھوں کی جگہ مشینوں نے لے لی ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ توجہ طلب ہے کہ ماضی میں ایک کلوگرام دھاگے کی قیمت چالیس سے ساٹھ روپے ہوتی تھی جو بڑھ کر 2ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ موسم سرما کے سیزن میں کھدر کے کپڑے کی مانگ بڑھ جاتی ہے جس پورا کرنے کےلئے مقامی طور پر تیار کردہ دھاگہ کم پڑ جاتاہے اور یہی وجہ ہے کہ ملتان‘ لاہور‘ قصور‘ منڈی بہاو¿الدین اور فیصل آباد سے دھاگا خریدنا پڑتا ہے۔ دھاگے کی گرانی کے سبب چینی ساختہ مصنوعی فائبرز (پولیسٹر) کا استعمال بھی ہونے لگا ہے جس کا معیار اور خوبصورتی ہاتھ سے تیار شدہ کھدر میں استعمال ہونے والے دھاگے کی نسبت کم ہوتی ہے۔ ماضی میں کپڑا تیار کرنے والوں کو برادری سے باہر کا سمجھا جاتا تھا جسے پشتو میں شہ خیل کہتے تھے کیونکہ ان کے پاس زمین کی ملکیت نہیں ہوتی تھی اور وہ دیگر علاقوں سے ہجرت کرکے پختون اکثریتی علاقوں میں آباد ہوتے تھے۔ اکثر یہ مہاجرین قبائل کے سرداروں کےلئے کام کرتے تھے اور بدلے میں ان کو کھانا اور رہنے کی جگہ دی جاتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں اور اب امیر گھرانے بھی کپڑا سازی کے اِس منافع بخش کاروبار سے وابستہ ہو رہے ہیں‘ جسے حکومت کی توجہ اور سرپرستی کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: طارق اللہ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)