کسی ملک کی خام قومی پیداوار (گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ ’جی ڈی پی) ایک ایسا پیمانہ ہے جس سے وہاں کی معاشی و اقتصادی ترقی کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے اور اِسی پیمانے میں تبدیلی (بہتری یا خرابی) کی صورت میں ترقی یا تنزلی کے بارے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ’جی ڈی پی‘ تمام اقتصادی اعشاروں کا مجموعہ ہوتی ہے اور اِسی سے کسی ملک کی اقتصادی حالت اور کارکردگی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔اُنیس سو ساٹھ‘ ستر اور اَسی کی دہائیوں میں پاکستان کی مجموعی قومی خام پیداوار (جی ڈی پی) میں سالانہ ترقی کی شرح اوسطاً باالترتیب 6.8‘ 4.8 اور 6.5 فیصد تھی۔ مالی سال 2018ءمیں جب تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو اُس سے قبل پاکستان کی قومی خام پیداوار5.8 فیصد تھی جو سال 2019ءمیں کم ہو کر 0.9 فیصد ہو گئی یعنی ایک فیصد سے بھی کم رہی جس کی ایک وجہ (محرک) کورونا وباءبھی ہے۔ پاکستان میں کورونا وبا ءکا پہلا متاثرہ شخص 26 فروری 2020ءکو کراچی میں سامنے آیا جس کے بعد سے کورونا وبا ءپھیلتی چلی گئی اور ملک کی پیداوار کم ہوتے پہلے ڈیڑھ فیصد اور بعد میں منفی ہو گئی‘ اِس اقتصادی زبوں حالی کی بھی اپنی الگ تاریخ ہے۔ اِس سے قبل آخری مرتبہ پاکستان کی خام پیداوار مثبت سے منفی میں سال 1952ءکے دوران گئی تھی۔سال 1960ءمیں ہر پاکستانی کی اوسط آمدنی 83 ڈالر تھی۔ سال 2018ءمیں اوسط آمدنی بڑھ کر 1482 ڈالر ہو گئی۔ سال 2019ءمیں پاکستانیوں کی اوسط آمدنی کم ہو کر 1284ڈالر ہو گئی اور سال 2020ءمیں یہ مزید کم ہو کر 1130 ڈالر سالانہ ہو چکی ہے۔پاکستان میں جہاں قومی پیداوار اور قومی آمدنی مسلسل کم ہو رہی ہیں وہیں مہنگائی میں غیرمعمولی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 1957ءسے 2020ءکے دوران مہنگائی کی شرح 8 فیصد تھی۔ سال 2008ءکے دوران مہنگائی 20فیصد بلند جبکہ سال 2015ءمیں تاریخ کی کم ترین شرح یعنی 2.5فیصد پر تھی۔ سال 2018ءاور 2020ءکے درمیانی عرصے میں گندم‘آٹے‘ چینی اور بجلی کی قیمتوں میں 100 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور اِس کے باوجود بھی مہنگائی کو قرار نہیں بلکہ اِس کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے کیونکہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات اُور بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ کر رہی ہے۔خام پیداوار میں کمی اور مہنگائی کے سبب غربت میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ ایک اقتصادی اعشاریہ بھی ہے۔ اگر پاکستان میں غربت میں کمی سے متعلق کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ بیس برس میں اِس سلسلے میں کافی محنت ہوئی ہے لیکن جب مہنگائی بڑھائی جاتی ہے تو اِس سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ سال 2018ءمیں 7 کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے جنہیں انتہائی غرباءمیں شمار کیا جاتا ہے کہ اِن کے پاس ایک وقت سے زیادہ کھانے پینے کی اشیا ءنہیں ہوتیں۔ سال 2018ءمیں جب پاکستان کے 7 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے تو سال 2021ءمیں ایسے افراد کا شمار 9 کروڑ سے تجاوز کر گیا ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی سے ملک کی اقتصادی صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگست 2018ءمیں جب تحریک انصاف برسراقتدار آئی تو پاکستانی روپے کی امریکی ڈالر کے مقابلے قدر 122 روپے تھی جس کے بعد سے روپے نے اپنی 30 فیصد قدر کھوئی ہے۔ سال 2013ءمیں پاکستان کی برآمدات اور خدمات کا شعبہ 30.7 ارب ڈالر کا حجم رکھتا تھا جو 2018-20ءکے درمیان میں 28 ارب ڈالر کی برآمدات کے ساتھ کمی کے دور سے گزر رہا ہے۔پاکستان میں غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری (فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ) میں بھی کمی آئی ہے۔ سال 2018ءسے 2020ءکے دوران 2.78 ارب ڈالر سے غیرملکی سرمایہ کاری 1.36 ارب ڈالر ہوئی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری مالی سال 2020ء2.56ارب ڈالر پر ہے۔پاکستان کا قرض اور مالیاتی ذمہ داریاں جو سال 2018ءمیں 30 کھرب روپے تھیں بڑھ کر 45 کھرب روپے ہو چکی ہیں۔ آج ہر پاکستانی خاندان 15 لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ ملک کی کل آمدنی قرضوں اور اِن قرضوں پر سود ادا کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ پاکستان کے پاس غیرملکی سرمائے کے ذخیرے میں اضافہ ہوا ہے۔ 2 سال قبل سٹیٹ بینک کے پاس 9.7 ارب ڈالر تھے جو بڑھ کر 12.9 ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ اپنی جگہ لائق توجہ ہے۔ جولائی سے نومبر‘ پانچ ماہ کے دوران ہوا تجارتی خسارہ 9.6 ارب ڈالر ہے اور یہ خسارہ بڑھتے ہوئے 14.96 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)