بزرگوں کی سوچ 


  ریٹائرمنٹ ایک طرح سے موت کی تیاری ہی ہوتی ہے۔ بس اس دوران انسان کا خرچ بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کم و بیش بائیس کروڑ ہے جس میں سے بیاسی لاکھ افراد کی عمر پینسٹھ سال سے زیادہ ہے لیکن ان میں سے کچھ لوگوں کو ہی  پنشن اور اس کے ساتھ صحت کی سہولیات حاصل ہیں جس کی اب انہیں ضرورت رہے گی۔ ان کا انحصار یا تو اپنی جمع پونجی پر ہوتا ہے یا پھر گھر والوں پر یا پھر صرف خدا پر۔ ان بزرگوں کی مشکلات میں ایک تازہ اضافہ یہ ہوا ہے کہ یہ لوگ اب سینوفارم کی کورونا ویکسین نہیں لگوا سکتے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ واحد ویکسین ہے جو یہ افراد خریدنے کی استطاعت رکھتے تھے اور ایسا نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ عمر رسیدہ افراد پر اس ویکسین کے اثرات مکمل طور پر جانچے نہیں گئے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے حکمرانوں کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا نہیں اور نہ ہی انہیں پانی بجلی گیس کے بلوں کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی بڑھاپے میں ہونے والے عدم تحفظ کی۔ ان کے آخری سال تو برطانیہ اور امریکہ کے بہترین ہسپتالوں میں گزرتے ہیں اور زندگی کا اختتام بس افسوس کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہمارے تین حکمران تو ویسے ہی پینشن کے اہل ہوچکے ہیں لیکن انہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ چوہدری پرویز الہٰی  75 سال کے ہیں۔ نواز شریف 71 برس کے ہیں اور عمران خان کی عمر اڑسٹھ برس ہے۔ یہ تمام ہی چھیاسٹھ سالہ جرمن چانسلر اینجلا مرکل سے زیادہ عمر کے ہیں۔ اینجلا مرکل کا ذکر یہاں اس لئے ہوا کہ وہ اب چانسلر شپ کی چار سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد سیاست سے ریٹائر ہورہی ہیں۔ مرکل کی زندگی کوششوں اور کامیابیوں کا ایک نمونہ ہے۔ ان کی تربیت مشرقی جرمنی میں ہوئی ہے۔ مارگریٹ تھیچر کی طرح وہ بھی ایک کیمسٹ ہیں لیکن مارگریٹ کے برعکس انہوں نے کوئی طوفان برپا نہیں کیا۔ ان کے طویل دورِ اقتدار میں جاری رہنے والی جدت اور مفاہمت دیگر حکمرانوں کیلئے بھی مشعل راہ بننی چاہئے۔ صرف انہی جیسا کوئی شخص بریگزٹ جیسے سانحے کو برداشت کرسکتا تھا۔ ایک ایسی طاقت جس نے دو مرتبہ (1918ء اور 1945ء میں) یورپ کو جرمنی سے آزاد کروایا ہو اب وہی ان جرمنوں کی اولادوں سے آزادی حاصل کررہے ہیں۔ یورپی یونین میں جرمنی کے اکیلے تسلط نے اسے ایک ایسی حیثیت دے دی ہے جو یورپی یونین کے چھبیس ممبر ممالک میں سے کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ ان کے مخالفین جرمنی میں رہنے والے ترکوں اور مہاجرین کے حوالے سے مرکل کی پالیسیوں پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن کیا وہ خود بھی اس سے کچھ مختلف کرسکتے تھے؟ اگر مرکل کو کوئی چیز ناپسند ہے کہ تو وہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن ہیں۔ پیوٹن کو یہ بات معلوم تھی کہ مرکل کو کتوں سے ڈر لگتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایک ملاقات میں اپنے کتے کو ساتھ لے آئے۔ مرکل نے اسے صرف رعب ظاہر کرنے کی کوشش سمجھا۔ پیوٹن تو ’کے جی بی‘ کے تربیت یافتہ ہیں اور ہوسکتا ہے کہ مرکل کی تربیت جرمن اسٹازی نے کی ہو‘ وہ دونوں ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں تاہم پندرہ سالہ طویل اور بعض اوقات کشیدہ تعلقات کے دوران دونوں نے کبھی بھی اپنی ذاتی دشمنی کو دونوں ممالک کے مابین تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ اس وقت جرمنی کا مکمل انحصار روسی تیل اور گیس پر ہے۔ مثال کے طور پر نوڈ اسٹریم ٹو نامی زیرِ سمندر پائپ لائن روس سے جرمنی کو قدرتی گیس فراہم کرتی ہے۔ مرکل نے تین امریکی صدور (جارج بش‘ باراک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ) کے ادوار دیکھے ہیں۔ جس دوران ٹرمپ بحیرہ اوقیانوس کے پار دیوار بنانے کی بات کر رہے تھے انہوں نے تب بھی جرمنی اور امریکہ کے تعلقات متوازن رکھے اور جب صدر جو بائیڈن نے اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ چین کے خلاف ’اتحاد کی سرد جنگ‘ میں شامل ہونے کی بات کی تو مرکل نے اس پر بھی بھرپور ردِعمل کا مظاہرہ کیا۔ ڈیوس میں بات کرتے ہوئے چینی صدر کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا حوالے دیتے ہوئے انہوں نے بین الاقومی تسلط کو ختم کرنے اور دنیا میں کثیر الجہتی کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر امریکہ پر ظلم و بربریت کا الزام عائد کیا۔ رواں صدی کے وسط تک چین اور روس اقوامِ عالم میں نمایاں ہوں گے اور ڈیوس اجلاس کے بعد امریکہ‘ جرمنی‘ فرانس‘ برطانیہ اور جاپان کو رہنماؤں کی تصویر میں جگہ بنانے کیلئے محنت کرنی ہوگی۔ برازیل‘ میکسیکو اور ارجنٹینا جیسے جنوبی امریکہ کے ممالک کو ابھی معاشی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اگر افریقی معیشتوں کو 2050ء تک ’اوسط آمدن‘ کی سطح تک پہنچنا ہے تو انہیں ابھی مزید کام کرنا ہوگا۔ شاید وقت آ چکا ہے کہ ہمارے معمر حکمرانوں کو بھی اینجلا مرکل کی طرح سیاست سے علیحدہ ہونے کے لئے کسی حد کاتعین کرنا چاہئے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ایف ایس اعجازالدین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)