سینیٹ: پیپلزپارٹی کی حکمت عملی۔۔

سینیٹ انتخابات کےلئے پولنگ کی تاریخ تین مارچ مقرر ہونے کے ساتھ ہی سیاسی گہماگہمیاں عروج پر ہیں اور سبھی پارلیمانی جماعتوں کی کوشش ہے کہ وہ کم سے کم اپنے اپنے حصے کی سینیٹ نشستیں حاصل کریں تاہم چناو¿ کا یہ عمل جس قدر آسان اور سادہ دکھائی دیتا ہے اُس قدر ہے نہیں‘سینیٹ انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں کی وفاداریاں خریدنے کے عمل کو ’ہارس ٹریڈنگ‘ کہا جاتا ہے جو نہایت ہی پیچیدہ عمل ہے کیونکہ اِس کی تعریف کسی ایک زاویئے اور کسی ایک رخ سے نہیں کی جا سکتی۔ وفاقی حکومت (تحریک انصاف) کی کوشش و خواہش ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ’خفیہ رائے شماری‘ کی بجائے اراکین کی رائے کا شمار ظاہراً کیا جائے اور معلوم ہو کہ کس رکن نے کس کے حق میں اپنا ووٹ دیا ہے۔ سینیٹ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں تحریک انصاف کے حصے میں آئیں گی کیونکہ اُن کے اراکین کی تعداد قومی و صوبائی اسمبلی میں نسبتاً زیادہ ہے لیکن تحریک انصاف چاہتی ہے کہ امکانی طور پر ووٹ کی قیمت لگنے کے عمل کو روکا جائے جس کی موجودگی سے کوئی بھی سیاسی جماعت انکار نہیں کرتی۔ ماضی میں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت بھی سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات اور توقعات کے برعکس نتائج برآمد ہونے کے بعد اِس ضرورت پر زور دے چکی ہیں کہ سینیٹ انتخابات کے لئے ووٹنگ کا عمل ’شو آف ہینڈز‘ کے ذریعے ہی ہونا چاہئے لیکن جب یہی مطالبہ تحریک ِانصاف کی جانب سے سامنے آیا تو حزب اختلاف کی گیارہ جماعتوں کے اِتحاد پر مبنی ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی اَیم)‘ نے ’شو آف ہینڈز‘ کی مخالفت کر دی اور اس فیصلے کو کسی درست وقت تک مو¿خر کرنے کا مطالبہ کیا۔سینیٹ انتخابات میں ’پی ڈی ایم‘ اسلام آباد سے قسمت آزمائی کرے گی اور اِس مقصد کے لئے اُس نے اپنے ایک مضبوط رہنما‘ سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے رہنما ’یوسف رضا گیلانی‘ کو میدان میں اُتارا ہے‘ جن کی اپنی جماعت سے نظریاتی وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اگر وہ اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست جیتنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اِس سے ثابت ہو جائے گا کہ تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں اکثریت نہیں رہی۔ سینیٹ انتخابات کے اِس ڈرامائی موڑ پر مقابلہ ایک سیاسی وفادار اور ایک ایسی جماعت کے درمیان آ ٹھہرا ہے جس نے ملک کو اقتصادی مسائل سے دوچار کر رکھا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کا مقابللہ حفیظ شیخ سے ہوگا جو حکمراں جماعت میں کافی غیرمقبول ہیں اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کی جو لہر آئی ہے اُس کا سبب اراکین اسمبلی وزیر خزانہ حفیظ شیخ ہی کو سمجھتے ہیں جن کی مالیاتی حکمت عملیوں کے سبب عوامی نمائندوں کو اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تحریک اِنصاف کی صفوں میں پائے جانے والی اِس اختلافی صورتحال ’پی ڈی ایم‘ فائدہ اُٹھانے کا بھرپور ارادہ اور تیاری رکھتی ہے اور ماحول بھی ایسا بن رہا ہے کہ جو بظاہر ’پی ڈی ایم‘ کے حق میں ہے۔فرض کریں کہ اگر یوسف رضا گیلانی سینیٹ نشست جیت لیتے ہیں تو کیا اِس کے بعد ’پی ڈی ایم‘ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم لائے گی؟ جمہوریت میں اَفراد (شخصیات) نہیں بلکہ ادارے اور قومی حکمت عملیاں اہم ہوتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ جمہوری اقدار میں یقین رکھتی ہے اور جمہوری عمل کا تسلسل چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے بارہا کہا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے عمل یا تحریک کا حصہ نہیں بنے گی جس کی وجہ سے جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اُتر جائے۔ اِس پوری صورتحال میں تحریک انصاف کے لئے سبق یہ ہے کہ وہ بھی جمہوری قدروں اور جمہوری عمل میں اپنے یقین کو مضبوط کرے اور ایسے کسی بھی عمل سے گریز کرے جس کی وجہ سے جمہوریت کو نقصان پہنچے یا جمہوریت کے معنی اور اِس کی افادیت پر حرف آئے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا سینیٹ انتخاب درحقیقت وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا حصہ ہے۔ سیاست میں نپے تلے اور درست و بروقت فیصلوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ ’پی ڈی ایم‘ نے ابتدا میں چند فیصلے جلد بازی میں کئے لیکن سینیٹ و ضمنی اِنتخابات کے موقع پر وہ خاصے تحمل اور سوچ بچار کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ سیاست میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو بروقت فیصلہ کرتا ہے اور سینیٹ کے لئے حالیہ انتخابات ملک کی سیاسی صورتحال میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مصطفی عبداللہ بلوچ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)