چناو¿ برائے سینٹ۔۔۔

سینٹ انتخابات ہونے کو ہیں اور حزبِ اختلاف کی جانب سے سڑکوں سے ہٹ کر ایوان میں بھی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی تیاری ہورہی ہے۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی ہمیشہ کی طرح بہت پرجوش ہے اور اگر حزب اختلاف انہیں حسب خواہش ’ٹف ٹائم‘ نہ دے سکی تو شاید اس جوش میں یہ خود کو ہی ’ٹف ٹائم‘ دے دیں گے۔ سیاسی جماعتوں کی تیاریوں سے قطع نظر ایوانِ بالا کو صرف تین سال میں ایک مرتبہ ہی اتنی توجہ حاصل ہوتی ہے۔ یہ پارلیمانی نظام کا وہ بچہ ہے جو دوسروں سے زیادہ لائق ہونے کے باوجود لوگوں کی توجہ سے محروم رہتا ہے اور ساری کی ساری توجہ قومی اسمبلی کے کھاتے میں چلی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا فورم ہے جہاں تعمیری بحث ہوتی ہے اور یہاں پروفیشنلز اور نسبتاً کم دولت مند (کاغذی اعتبار سے) اراکین کے پاس اپنی بات رکھنے کا موقع ہوتا ہے۔سینٹ انتخابات کا مرحلہ کبھی بھی افواہوں اور تنازعات سے خالی نہیں ہوتا۔ ان میں سے کچھ کہانیاں تو صرف قیاس پر مبنی ہی ہوتی ہیں‘ جیسے سینٹ انتخابات سے پہلے ایک طرح کی غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان انتخابات سے پہلے ہی موجودہ نظام لپٹ جائے گا اور حکمران جماعت کا سینٹ میں اکثریت حاصل کرنے کا خواب چکنا چور ہوجائے گا۔ خوش قسمتی سے ان افواہوں میں زیادہ دم نہیں ہوتا۔ اس بار پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے ماضی کی طرح غیر یقینی پھیلانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کا لوگوں پر زیادہ اثر نہیں ہوا۔ ماضی کی طرح ایک کے بعد ایک ڈیڈ لائن گزرتی گئیں اور کچھ بھی نہ بنا تاہم غیر متوقع نتائج اور اپ سیٹ ہونے کی باتیں حقیقت سے قریب تر ہوتی ہیں‘ پھر چاہے وہ نتائج خریدے ہی کیوں نہ گئے ہوں۔ ماضی میں (دوہزار اٹھارہ کے دوران) سینٹ انتخابات کو انتخاب سے زیادہ بازار کی صورت میں دیکھا گیا اور اس بازار میں پیسہ چلانے کی خوب کوششیں ہوئیں۔ بلوچستان سے پی ٹی آئی کے حالیہ امیدواروں کے حوالے سے ہونے والی بحث سے لگتا ہے کہ سیاستدانوں نے ابھی تک ماضی سے سبق حاصل نہیں کیا ہے لیکن دوسری جانب سیاسی جماعتیں بھی اس بات پر توجہ دینے لگی ہیں کس طرح اپنے نمائندوں کو قابو میں رکھا جائے۔مثال کے طور پر دوہزارپندرہ میں دھرنوں اور شدید دباو¿ کے سبب پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے درمیان ہونے والے شدید تناو¿ کے باوجود دونوں جماعتوں نے خیبرپختونخوا میں مل کر اس بات کو یقینی بنایا کہ جماعت سے الگ رہنے والے یا لالچی امیدوار کسی صورت سینیٹ میں نہ پہنچ سکیں۔ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے رازداری کے ساتھ ہونے والے اس معاہدے پر تنقید کی تھی لیکن جب دوہزاراٹھارہ کے سینٹ انتخابات میں اس قسم کا کوئی معاہدہ موجود نہیں تھا تو پی پی پی خیبر پختونخوا سے دو سینیٹر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی (جس کی قیمت بعد میں پی ٹی آئی کو ادا کرنی پڑی)۔ عمران خان نے سخت الزامات لگانے میں دیر نہیں کی اور جماعت کے مشکوک اراکین کو جماعت سے نکال دیا۔ اب جبکہ ہمارے سامنے ویڈیوز (ثبوت) موجود ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے انتخابات کوئی قابلِ فخر تصویر پیش نہیں کرتے لیکن ایک جانب تو عمران خان اس نظر نہ آنے والے ہاتھ کو کوس رہے تھے جس نے ان کی جماعت کے نمائندوں کو خرید لیا اور دوسری جانب وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی کام کر رہے تھے۔ دونوں جماعتوں نے دوہزاراٹھارہ میں ’نواز لیگ کے بغض‘ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور سینیٹ کی چیئرمین شپ بلوچستان عوامی پارٹی کو تھمادی۔ لیکن ان دونوں جماعتوں کا یہ رومانس بہت مختصر ہی رہا اور یہ خیبر پختونخوا تک نہیں آسکا۔ سچ تو یہ ہے کہ تمام ہی جماعتیں اپنے نمائندوں کو ذاتی رائے دینے سے محروم رکھنا چاہتی ہیں پھر چاہے اس کی وجہ ضمیر ہو یا پھر دنیاوی فائدے۔ سال دوہزاراٹھارہ کے بعد نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے سندھ اور پنجاب سے اتنے ہی امیدوار کھڑے کئے جتنے بلا مقابلہ منتخب ہوسکیں۔ اس طرح انہوں نے سینیٹ انتخابات میں ہونے والی رسہ کشی سے بچنے کی کوشش کی۔ ان انتخابات میں پنجاب سے پاکستان پیپلز پارٹی کے صرف بابر اعوان ہی منتخب ہوئے اور ایک پرانے کارکن اسلم گِل ہار گئے۔ یہ جماعتیں باقی صوبوں کو بھی اس حکمت ِعملی پر قائل کرنے میں ناکام رہیں۔دوہزارتیرہ کے بعد نواز لیگ نے ہارس ٹریڈنگ ختم کرنے کی کوشش میں ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا جس میں اراکین کے ووٹ ڈالنے کے طریقے کو تبدیل کردیا گیا۔ یہ آرڈیننس سینیٹ انتخابات سے کچھ دیر قبل ہی جاری کیا گیا لیکن بعد میں حکومت نے اسے واپس لے لیا تاہم نظر یہ آتا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ہونے والے اپ سیٹ باقی جماعتوں کی نسبت پیپلز پارٹی کو کم ہی اپ سیٹ کرتے ہیں۔دوہزاراٹھارہ کے سینیٹ انتخابات میں خیبرپختونخوا کی مثال موجود ہے۔ دوہزارپندرہ کے سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سندھ سے کامیاب ہونے والے امیدواروں کی تعداد پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کی نسبت زیادہ تھی۔ خبریں یہ تھیں کہ اپوزیشن کے پانچ ووٹ صوبے کی حکمراں جماعت کی جھولی میں چلے گئے۔حتیٰ کہ آنےوالے انتخابات میں صرف پاکستان پیپلز پارٹی نے ہی ’پی ڈی ایم‘ کے مشترکہ امیدوار کے طور پر اپنے اراکین کو کھڑا کیا۔ باقی جماعتوں نے خود کو پیپلز پارٹی کے اس عمل کی حمایت تک محدود رکھا ہوا لیکن کسی بھی چیز سے یہ حقیقت تو تبدیل نہیں ہوسکتی کہ ہر جماعت سینیٹ انتخابات کے ذریعے سینیٹ میں اپنی نشستوں میں اضافہ کرنا چاہتی ہے اور تمام جماعتیں اپنے اراکین کو آزادانہ رائے کے حق سے محروم رکھنا چاہتی ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عارفہ نور۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)