قرض ادائیگی بذریعہ قرض۔۔

پاکستان کی مالیاتی ناکامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اور غیرحکومتی حلقوں میں جس ایک پہلو سے صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ملک چلانے کے لئے قرض پر اِنحصار کیسے کم کیا جائے؟ پاکستان پر لدے ہوئے بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ¿ کار کیا ہو سکتا ہے جس کے لئے ملکی آمدنی بڑھانا سب سے ضروری ہے جو زیادہ سے زیادہ ٹیکس حاصل کر کے ہی ہو سکتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان کے مالیاتی مسائل کی وجہ حکومت کی آمدنی (ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے ریونیو) میں اضافہ نہ ہونا ہے۔ سیدھی سادی بات ہے کہ اگر زیادہ ٹیکس اکٹھا ہو گا تو حکومت کو بیرون ملک سے بجٹ خسارے کےلئے ادھار نہیں لینا پڑے گا یعنی آمدنی بڑھا کر بیرون ملک قرضے پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے چونکہ معیشت سکڑ رہی ہے اور اس میں اتنی جان نہیں ہے کہ عوام زیادہ ٹیکس ادا کر سکیں اِس لئے فی الحال ملک میں ایسی پالیسی اپنانی ہو گی جس میں حکومت اپنے اخراجات کم کرے جنہیں غیرترقیاتی اخراجات بھی کہا جاتا ہے۔ یہ غیر ترقیاتی اخراجات سول اور عسکری دونوں شعبوں میں کم کرنا ہوں گے۔ مثال کے طور پر وفاقی سطح پر چالیس وزارتوں (ڈویژنز) کو گھٹا کر بیس تک لانا ہو گا اور اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل کئے جانے والے محکموں کو نئے نام سے وفاقی سطح پر برقرار رکھنے کی روش ختم کرنا ہوگا۔ اسی طرح دفاعی شعبے میں غیر جنگی اخراجات کم کرنا ہوگا اور صرف یہی دو کام کرنے سے ملک کو سالانہ اخراجات کی مدد میں ایک کھرب روپے کی بچت ہو گی جس سے ملک کا بیرونی قرضے پر انحصار کم ہو سکتا ہے۔دوسری طرف وزیر اعظم پاکستان عمران خان دعویٰ کر چکے ہیں کہ ان کے ڈھائی سالہ دورِ حکومت میں پاکستان نے بیس ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ واپس کیا ہے جو بیرونی قرضوں کی ریکارڈ واپسی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ڈھائی سالہ دور حکومت میں بیس ارب ڈالر کے بیرونی قرضے تو واپس کئے ہیں تاہم اِسی عرصے میں ملک کا مجموعی بیرونی قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ فی الوقت پاکستان کے ذمے واجب الادا مجموعی قرض 115ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ مرکزی مالیاتی ادارے (سٹیٹ بینک آف پاکستان) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اکتیس دسمبر دوہزاربیس تک پاکستان کا مجموعی قرض 115.756ارب ڈالر تھا۔ ایک سال پہلے یعنی اکتیس دسمبر دوہزاراُنیس کے روز یہ قرض 110.719 ارب ڈالر تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ تحریک ِانصاف حکومت کے دور میں مجموعی طور پر واجب الادا قرض میں ایک سال میں پانچ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ سٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار میں ملک کے مجموعی طور پر بیرونی قرض کی بات کی گئی ہے۔ اس قرض میں حکومت ِپاکستان کی جانب سے لئے گئے قرض کے علاوہ حکومتی تحویل میں چلنے والے اداروں کی جانب سے لیا گیا قرض بھی شامل ہے تو اس کے ساتھ ملک کے نجی شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے بیرون ملک سے لیا گیا قرض بھی شامل ہے۔ یہ رقم صرف حکومت نہیں بلکہ پورے پاکستان کی واجب الادا رقم ہے۔ حکومت بیرونی اور داخلی ذرائع سے قرض حاصل کرتی ہے۔ حکومتی قرضے کو دیکھا جائے تو اس میں سے ایک تہائی قرض بیرونی ذرائع سے حاصل کیا گیا اور دو تہائی قرضہ داخلی ذرائع یعنی مقامی بینکوں سے لیا جانے والا ادھار ہے جبکہ ملک کے خام پیداوار (جی ڈی پی) اور قرض کے درمیان تناسب پر بات کی جائے تو یہ قریب تیس فیصد بنتا ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے واپس کئے گئے بیرونی قرض کی واپسی کی تصدیق سرکاری اعداد و شمار سے ہوتی ہے۔ اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کی مدت شروع ہونے سے لے کر اکتیس دسمبر دوہزار بیس تک 20.454 ارب ڈالر کا بیرونی قرض واپس کیا گیا ہے۔ اگر پاکستان مسلم لیگ نواز کے پہلے ڈھائی سالہ دور حکومت میں بیرونی قرض کی واپسی کو دیکھا جائے تو اس کی مالیت 9.953ارب ڈالر تھی جبکہ پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت کے پہلے ڈھائی سالوں میں 6 ارب ڈالر سے زیادہ کا بیرونی قرض واپس کیا تھا۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت قائم رہے تو یہ بات یقینی دکھائی دیتی ہے کہ پاکستان کے ذمے قرضوں کا زیادہ حصہ ادا ہو جائے گا لیکن اسے ہمیں معیشت کے حجم کے تناظر میں بھی دیکھنا ہوگا کیونکہ معیشت کا سائز بڑھا ہے تو اس لحاظ سے قرض بھی زیادہ لیا گیا ہے اور اسی حساب سے اس کی واپسی بھی زیادہ ہوئی ہے۔ واپس کئے گئے قرضے میں نوے فیصد سے زائد حصہ اصل رقم ہے اور سود کی ادائیگی بہت کم ہے۔ بیرون ملک سے حاصل کئے گئے قرض پر شرح سود بہت کم ہوتا ہے اور یہ دو تین فیصد تک ہونے کے ساتھ اس کی واپسی بھی طویل مدتی ہوتی ہے۔ پاکستان کی بیرونی قرض کی واپسی کا میچورٹی دورانیہ اوسطاً سات سال بنتا ہے جو بہت اچھا دورانیہ سمجھا جاتا ہے اور بیرون ملک قرضے دینے والے ادارے بھی اسی وجہ سے پاکستان پر اعتماد کرتے ہیں کہ ملک قرض لینے اور واپس کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ ہر سال پاکستان کے ذمے بیرونی قرض میں سے آٹھ سے دس ارب ڈالر ادائیگی کےلئے میچور ہوجاتا ہے جس کی ادائیگی کے لئے مزید (نیا) قرض لینا پڑتا ہے تو اس کے ساتھ بجٹ خسارے کےلئے مزید قرض بھی حاصل کرنا پڑتا ہے جو تقریباً پانچ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ تحریک انصاف نے قرض تو واپس کیا ہے تاہم یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ بیرونی قرضہ پاکستان نے اپنے وسائل پیدا کر کے ادا کئے گئے ہیں یا پھر بیرون ملک سے نیا قرض اٹھا کر پرانا قرض ادا کیا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر شاہد وسیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)