اقتصادی حکمت عملی کے چار جز ہوتے ہیں جن سے متعلق حکومت کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوتا ہے اور اُن اہداف کو حاصل کرنے کے لئے کوششیں کرنا ہوتی ہیں۔ ان میں سرفہرست محصولات (ٹیکس) کی وصولی‘ دوسرا حکومت کے اپنے غیرترقیاتی اخراجات میں کمی‘ شرح سود کو کم سے کم رکھنا تاکہ سرمایہ کاری میں اضافہ ہو اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور سرمائے کی حسب طلب فراہمی۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان کا قومی قرض بڑھ رہا ہے اور اِس کے بڑھنے کی رفتار غیرمعمولی ہے۔ یومیہ 18 ارب روپے کا قرض بڑھنا کسی بھی طرح قابل قبول اور ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال کے لئے نیک شگون نہیں ہوسکتا۔ تو آخر اس قدر قرض جاتا کہاں ہے؟ ہر حکومت ماضی کی حکومت کو قرض بڑھانے کا طعنہ دیتے ہوئے خود قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے تو وہ کون سے ایسے اخراجات ہیں جو غیرمعمولی مقدار میں قرض لینے کے باوجود بھی پورے نہیں ہو رہے۔ اِس سلسلے میں سرکاری محکموںکی مالیاتی کارکردگی اور خسارے پر نظر کرنا ہوگی۔ پاکستان کے خزانے کو یومیہ 2 ارب روپے کا خسارہ صرف اور صرف بجلی کا شعبہ پہنچا رہا ہے۔ اِس کے علاوہ سرکاری محکمے مجموعی اور اجتماعی طور پر قومی خزانے کو سالانہ ایک اعشاریہ آٹھ کھرب روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ گیس کا شعبہ بھی خرابیوں کا مجموعہ ہے جو یومیہ 1 ارب روپے کا خسارہ دے رہا ہے اور اس خسارے میں آئے روز مزید اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اِسی طرح اشیا ءکے ذخیرے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے محکمہ خوراک قومی خزانے کو سالانہ 753 ارب روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں۔ علاوہ ازیں وفاقی اور صوبائی سرکاری محکموںکے لئے خریداری کے عمل میں سالانہ 7.5 کھرب روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور اِس قدر نقصان ہر سال تواتر سے ہو رہا ہے۔بجلی و گیس کے پیداواری اور ترسیلی شعبے سے حکومتی محکموںکی کارکردگی اور خریداری تک کے مراحل میں ہونے والے خسارے کو دیکھا جائے تو حکومت کی تمام تر کوششیں اور دعوے ناکافی و ناکام ثابت ہوئے ہیں اور یوںمحسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومت اور مالیاتی نظم و ضبط کا کہیں نام و نشان ہی نہیں اور جس کی جو مرضی میں آئے وہ کر رہا ہے جبکہ پاکستان کی واجب الادا مالیاتی ذمہ داریاں (قرضہ جات) ہر دن بڑھ رہے ہیں‘ جس میں کمی ممکن ہی نہیں۔پاکستان کے فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ وہ اقتصادی حکمت عملی اور روایتی طریقوں سے اقتصادی مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے غیرروایتی حربوں کو بروئے کار لائیں جس میں سرفہرست ادارہ جاتی ڈھانچوں میں تبدیلی ہے۔ اقتصادی حکمت عملی تن تنہا مالیاتی مسائل کا حل فراہم نہیں کرسکتی اور اب تک ہر دن بڑھتے ہوئے قرض سے یہ بات ثابت (اظہر من الشمس) ہو چکی ہے کہ مالیاتی حکمت عملی کی موجودہ صورت مسائل کے حل کے لئے ناکافی ہیں کیونکہ مسائل بحران کی شکل اختیارکر چکے ہیں۔ جب ہم ادارہ جاتی ڈھانچے میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو اِس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ترجیحات کے تعین‘ کاروبار یعنی خریدوفروخت‘ لین دین اور خدمات کی فراہمی کرنے والے اہلکاروں (ملازمین) کے کام کاج کے روایتی طور طریقوں کو تبدیل کیا جائے تاکہ اُس سوچ میں تبدیلی لائی جا سکے جو سرکاری وسائل کو مال مفت سمجھتی ہے۔ پاکستان میں نجی شعبہ حکومت کی مدد کر سکتا ہے جس کے پاس سرمایہ بھی ہے اور کام کرنے کا حوصلہ‘ عزم‘ توانائی اور تجربہ بھی لیکن اِس نجی شعبے کو بھی کئی قسم کے مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے کاروبار منافع بخش نہیں رہے جیسا کہ بجلی و گیس کی قیمت اور ٹیکسوں کا بوجھ وغیرہ۔ پاکستان کے نجی شعبے میں صلاحیت ہے کہ وہ قومی پیداوار میں اضافہ کرے۔ برآمدات میں اضافہ کرے۔ روزگار کے مواقع پیدا کرے اور اِس سے نہ صرف یہ کہ خوراک کا تحفظ اور پاکستان داخلی طور پر خودکفیل ہوگا بلکہ قیمتی زرمبادلہ کمانے سے خزانے پر غیرملکی ادائیگیاں کرنے کا بوجھ بھی کم ہوگا۔ حکومت کے لئے اب کوئی دوسری صورت نہیں رہی لیکن وہ سرکاری اداروں کی بجائے نجی شعبے کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرے اور اعتماد بحال کرے کہ جس میں نجی شعبہ حکومت کو موجودہ اقتصادی بحران سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔ اور جہاں اِس قدر بڑے پیمانے اور گہرائی میں مسائل پائے جائیں وہاں اصلاحات کے لئے غیرروایتی حربوں سے کام لینے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اقتصادیات کے عالمی اصولوں کومدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے اقتصادی فیصلہ ساز کتنی جلدی حقیقت کا اعتراف اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)