منتشر خیالات۔۔۔۔

پاکستان کی قومی اسمبلی نے 13 اگست 2018ءکے روز حلف اُٹھایا تھا اور اِس مناسبت سے رواں مہینہ نیشنل اسمبلی کی آئینی مدت کا نصف حصہ مکمل ہو چکا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف 18 اگست 2018ءکے روز اُٹھایا تھا۔ رواں قومی اسمبلی کی نصف آئینی مدت مکمل ہونے پر وقت ہے کہ چند منتشر خیالات کو یکجا کر کے کسی نتیجے تک پہنچا جائے۔ پاکستان تحریک انصاف نے جولائی 2018ءکے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اِس انتخابی کامیابی کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں اکثریت قائم کرتے ہوئے تحریک انصاف کو حکومت سازی کا موقع ملا۔ تحریک انصاف سے سیاسی اور نظریاتی اختلافات رکھنے والوں کا مو¿قف اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور اُس نے اپنی اِس انتخابی کامیابی ہی کی بدولت حکومت بنائی جس کی نصف آئینی مدت مکمل ہو چکی ہے۔ اِس عرصے کے دوران تحریک انصاف کی کارکردگی کیا رہی اور تحریک انصاف کن کن محاذوں پر کامیاب یا ناکام رہی ہے اِن سبھی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی ایک جماعت کےلئے عملاً ممکن نہیں کہ پورے ملک کا نظام ازسرنو مرتب کرے اور نہ ہی یہ بات ممکن ہے کہ ایک ایسا نظام درست کیا جا سکے جو چل بھی رہا ہو۔ پاکستان آئندہ عام انتخابات کے قریب پہنچ رہا ہے اور یہ فاصلہ اُس فاصلے سے کم رہ گیا ہے جو گزشتہ عام انتخابات (جولائی دوہزاراٹھارہ) کا تھا۔ بطور وزیراعظم عمران خان نے بہت سارے سبق سیکھے جن میں یہ ایک سبق بھی شامل ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اُس نظام کو درست نہیں کر سکتی جو اپنی بنیاد ہی سے خرابیوں کا مجموعہ ہو اور جس کا تسلسل اُس کی بنیادوں سے نہ ہو۔ تحریک انصاف کے پاس سنانے کو صرف بُری خبریں ہی نہیں بلکہ چند اچھی خبریں بھی ہیں جیسا کہ رواں ہفتے معلوم ہوا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے ڈیجیٹل مالیاتی خدمات اور وسیع تر ٹیکنالوجی کو اپنانے میں مدد دینے جیسے جرات مندانہ نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ روشن ڈیجیٹل اکاو¿نٹس‘ راست ادائیگیوں کا نظام متعارف کرایا گیا جس سے پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافہ مقصود ہے چند نہایت ہی اہم تبدیلیاں ہیں جو اُس واضح مقصد کے حصول میں سنجیدہ اقدامات کی عکاسی کرتی ہیں جس کے ساتھ حکومت آگے بڑھ رہی ہے۔ خاص طور پر معیشت کے شعبے میں حکومتی اقدامات ماضی سے قطعی مختلف اور بہتر نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کے تحریک انصاف کے دور اقتدار کی نصف مدت میں جو سنگ میل عبور کئے ہیں وہ انتہائی اہم ہیں اور اِس بات کا سہرا صرف اور صرف عمران خان کے سر ہے جنہوں نے سٹیٹ بینک کے گورنر اور ایس ای سی پی کی قیادت کرنے والوں کو اصلاحات کرنے کا موقع دیا اور کم سے کم مداخلت کرتے ہوئے ادارہ جاتی اصلاحات کو ممکن بنایا۔ ماضی کے حکمران اپنے سیاسی مفادات کے اسیر رہنے کی وجہ سے اصلاحات کو شروع تو کرتے تھے لیکن اُسے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاتا تھا۔ تحریک انصاف دور حکومت کی بڑی خبر تو معاشی اصلاحات ہیں جبکہ اِس سلسلے میں چھوٹی خبر اور جس محاذ پر تحریک انصاف کو خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی وہ یہ ہے کہ حکومت کی ڈیجیٹلائزیشن پالیسی انتہائی سست روی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ماضی کی حکومتوں کی ناکامیوں (اور کامیابیوں) کو مدنظر رکھنے کے باوجود بھی اِس شعبے میں خاطرخواہ بہتری نہیں لائی جا رہی۔ اگر تحریک انصاف اپنی باقی ماندہ آئینی مدت میں کسی بھی شعبے میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے تو اُسے ڈیجیٹلائزیشن پر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔ پاکستان کی ای کامرس پالیسی‘ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ایک مسودے کی شکل میں مقدس دستاویز جو ایک مردہ گھوڑا بن چکا ہے اور جس پر ہر دور حکومت میں خط و کتابت سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا تاہم تحریک انصاف نے اِسے دوبارہ زندہ کیا ہے اور اِس سلسلے میں وفاقی وزارت تجارت نے کام شروع کیا ہے۔ تحریک انصاف کی کچھ سیاسی مجبوریاں بھی ہیں اور اُنہیں ایک اتحادی متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ بنائے رکھنے کے لئے ایک وفاقی وزارت اُسے دینا تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کی وزارت سے نوازا گیا جس کےلئے ملک میں ’انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب‘ یعنی کمپیوٹرائزیشن ترجیح نہیں بلکہ اُسے صرف اور صرف ملنے والی وزارت سے حاصل ہونے والی مراعات سے سروکار ہے۔ تحریک انصاف کے فیصلہ سازوں کو اپنی باقی ماندہ آئینی مدت کے حوالے سے اہداف کا تعین کرتے ہوئے ماضی کی مثالوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا جو اُن حکمرانوں کی ناکامی اور شرمندگی کا باعث بنیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مشرف زیدی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)