خفیہ رائے شماری۔۔۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹ انتخابات میں اوپن ووٹنگ کی تجویز نے سیاسی کشیدگی میں اضافہ کر رکھا ہے چونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس وجہ سے میں اس کے قانونی پہلو کو عدالت پر چھوڑتے ہوئے اوپن ووٹ کے سیاسی پہلوو¿ں پر بات کرتا ہوں اب یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا ان عوامی نمائندوں کو اوپن ووٹ میں اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق ووٹ دینا چاہئے؟ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ انہیں اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ دینا چاہئے کیونکہ انہوں نے عام انتخابات میں اپنی جماعت کے نام اور وسائل کا فائدہ اٹھایا ہوتا ہے اور پھر جماعتی بنیاد پر ہونے والی سیاست غیر جماعتی سیاست سے بہتر ہوتی ہے۔ جماعتی بنیاد پر ہونے والی سیاست میں لوگ ایک خاص مقصد کے حصول کے لئے مل کر کوشش کرتے ہیں تو اگر کسی جماعت کا نمائندہ جماعتی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ دینے لگے تو وہ مشترکہ جدوجہد کو نقصان پہنچاتا ہے۔ امیدوار جماعت کے منشور سے واقف ہوتے ہیں اور ٹکٹ کے حصول کے وقت وہ اس بات کا وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ جیت گئے تو ایوان میں اپنی جماعت کے منشور کی حمایت کریں گے۔ اس کے برعکس ایک دوسری رائے یہ ہے کہ قانون سازوں کو اپنی مرضی سے ووٹ دینے کی آزادی ہونی چاہئے اور اس ضمن میں جماعت کی پالیسی کے مطابق ووٹ دینے پر مجبور کرنا ایک آمرانہ قدم ہے۔ اس وجہ کو خفیہ پارلیمانی ووٹنگ کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تاکہ عوامی نمائندوں پر سے اپنی سیاسی جماعت کی پالیسی کی اندھی تقلید کا دباو¿ ختم کیا جاسکے لیکن دوسری جانب خفیہ ووٹنگ کو بدعوانی اور ووٹ خریدنے سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ اگر برطانیہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسی جمہوریت کی بات کی جائے تو وہاں ایک توازن موجود ہے۔ وہاں ووٹنگ اوپن ہوتی ہے اور ریاست کے قوانین نمائندگان کو اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق ووٹ دینے کا پابند نہیں کرتے لیکن آسٹریلیا کی لیبر پارٹی جیسی چند جماعتیں اپنے نمائندگان سے باقاعدہ اس بات کا حلف لیتی ہیں کہ وہ جماعت کی پالیسی کے مطابق ہی رائے دیں گے آرٹیکل تریسٹھ اے کے مطابق وزیرِاعظم اور وزیرِاعلٰی کے انتخاب‘ تحریک عدم اعتماد اور آئینی ترامیم کے حوالے سے ہونے والی رائے شماری میں اگر کوئی نمائندہ اپنی جماعت کی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو اسے ڈی سیٹ کیا جاسکتا ہے‘ سینیٹ انتخابات میں اوپن ووٹ کی پی ٹی آئی کی تجویز تو درست ہے لیکن اس کا وقت‘ محرک اور اس حوالے سے دی جانے والی منطق درست نہیں ہے۔ سینیٹ انتخابات کے قریب اس معاملے کو اٹھانے سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ اس کا مقصد شفافیت لانا نہیں بلکہ ذاتی مفادات ہیں۔ اس خیال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی ساری توجہ صرف سینیٹ اتخابات پر ہے اور وہ تمام پارلیمانی انتخابات کی بات نہیں کر رہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین کے لئے ہونے والے انتخابات کی بات بھی نہیں کی جس پر ماضی میں کراس ووٹنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی یہ منطق بہت کمزور ہے کہ چونکہ سینیٹ کے انتخابات الیکشن کمیشن کرواتا ہے اس وجہ سے وہ آئین اور آرٹیکل دوسوچھبیس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ ہر وہ انتخاب جو کسی آئینی شق کے تحت ہو آئین کے دائرہ اختیار میں ہی آتے ہیں‘ چاہے ان انتخابات کو کروانے کی ذمہ داری کسی کی بھی ہو۔ پی ٹی آئی کی یہ منطق بھی غلط ہے کہ متناسب نمائندگی کے بارے میں آرٹیکل اُنسٹھ (شق دو) کا مطلب یہ ہے کہ سینیٹ انتخابات کے نتائج کسی بھی جماعت کی پارلیمانی قوت کے آئینہ دار ہوں۔ اس حوالے کا مطلب یہ ہے کہ اس شق میں شامل سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کے ذریعے ایک جماعت کو ملنے والی سیٹیں سینیٹ انتخابات میں ملنے والے ووٹوں کے مطابق ہونی چاہئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سینیٹرز اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق ووٹ دینے کے پابند نہیں ہوتے اور یوں یہ منطق بھی کمزور ہوجاتی ہے۔ عدالت اس حوالے سے جو بھی فیصلہ کرے تاہم پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ سینیٹ انتخابات کے بعد پارلیمان کے اندر ہونے والی تمام خفیہ رائے شماری کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک جامع بل پیش کرے اور پھر سیاسی جماعتوں اور ان کے نمائندوں کو یہ فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ اپنے نمائندوں کو کس حد تک آزادی دینا چاہتے ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر نیاز مرتضیٰ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)