عالمی سطح پر دہشت گردی کی مالی سرپرستی روکنے اور سخت گیر مالیاتی نظم وضبط لاگو کرنے کے لئے ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا قیام عمل میں لایا گیا جس کی جانب سے چالیس سفارشات مرتب کی گئی ہیں اور ان سفارشات کا عملاً نفاذ کرنے کے لئے ’انٹرنیشنل کارپوریشن‘ ریویو گروپ نامی ایک ذیلی تنظیم معاملات پر نظر رکھتی ہے۔ نومبر دوہزارسترہ میں انٹرنیشنل کارپوریشن ریویو گروپ کا اجلاس ارجنٹینا میں ہوا جس میں پاکستان سے متعلق ایک قرارداد پاس کی گئی‘ جس میں پاکستان کی جانب سے لشکر طیبہ‘ جیش محمد اور جماعت الدعوة جیسی تنظیموں کو دی جانے والی مبینہ حمایت کی طرف توجہ دلائی گئی۔ اس کے بعد امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی جس کے بعد فرانس اور جرمنی نے بھی اس کی حمایت کی۔ پاکستان کے اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے امریکہ اور دیگر تین ممالک سے پاکستان کا نام واپس لینے کی درخواست کی لیکن سب سفارتی کوششیں رائیگاں گئیں اور جون دوہزاراٹھارہ میں پاکستان کا نام ’ایف اے ٹی ایف‘ کی جانب سے مشکوک ممالک کی فہرست (گرے لسٹ) میں شامل کر لیا گیا۔ اس سے پہلے بھی پاکستان دوہزارتیرہ سے دوہزارسولہ تک گرے لسٹ کا حصّہ رہ چکا ہے اور دنیا کے اٹھارہ ممالک ’ایف اے ٹی ایف‘ کی گرے لسٹ میں شامل ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ایک ’بلیک لسٹ‘ بھی ہے جس میں دو ممالک (ایران اور شمالی کوریا) کے نام شامل ہیں۔’گرے لسٹ‘ میں موجود ممالک پر عالمی سطح پر مختلف نوعیت کی معاشی پابندیاں لگ سکتی ہیں اُور عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ بھی اسی بنیاد پر روکا جا سکتا ہے۔رواں ہفتے منی لانڈرنگ اور شدت پسندوں کی مالی امداد کی روک تھام کے عالمی نگراں ادارے کا تین روزہ اجلاس جاری ہے۔ جس میں پاکستانی حکومت کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کے خلاف کئے گئے اقدامات اور اب تک کی پیشرفت کا جائزہ لیا جائے گا اور فیصلہ ہوگا کہ آیا پاکستان کو مزید عرصہ گرے لسٹ میں رکھا جائے یا نہیں۔گزشتہ سال اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں ’ایف اے ٹی ایف‘ کی جانب سے پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ میں ہی رکھا گیا تھا۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ ماضی میں ادارے کی جانب سے پاکستان کو تجویز کردہ ستائیس میں سے چھ سفارشات پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو فروری دوہزاراکیس تک گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے۔ ’ایف اے ٹی ایف‘ حالیہ اجلاس (بائیس سے پچیس فروری) میں 205رکن مملک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ڈھائی سو مندوبین نے شرکت کی۔ یہ اجلاس کورونا وبا کے باعث ورچوئل یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے ہو رہا ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ کس بنیاد پر ہوگا؟ دنیا بھر میں منی لانڈرنگ اور شدت پسندوں کی مالی امداد روکنے کے لئے مرتب کردہ چالیس سفارشات مرتب کی گئی ہیں اور ان سفارشات پر عملدرآمد کو مدنظر رکھتے ہوئے رکن ممالک کو گرے یا بلیک لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔ دوہزاراٹھارہ میں جب پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا تو پاکستان کے مالی نظام اور قوانین کو ایف اے ٹی ایف کی چالیس میں سے تیرہ سفارشات کے مطابق پایا گیا جبکہ باقی ستائیس سفارشات پر عمل درآمد کرنے کے لئے پاکستان کو ایک سال کا وقت دیا گیا تھا تاہم فروری دوہزاربیس تک پاکستان صرف چودہ سفارشات پر ہی عمل درآمد کر سکا تھا لہٰذا پاکستان کو اکتوبر دوہزاربیس تک کا مزید وقت دیا گیا تاکہ باقی ماندہ تیرہ سفارشات پر بھی عمل درآمد کروایا جا سکے لیکن اکتوبر دوہزاربیس میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس نے چھ سفارشات پر عمل درآمد کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے چار ایسے شعبوں کی نشاندہی کی تھی جس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے اور اس کے لئے پاکستان کو فروری دوہزاراکیس تک کا اضافی وقت دیا گیا۔ گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے پاکستان نے بہت سے مشتبہ دہشت گردوں اور دہشت گردی میں ملوث افراد کی گرفتاریاں کیں۔ اسی سلسلے میں اپریل دوہزاراُنیس میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوة سے منسلک تنظیموں اور افراد کی گرفتاری اور سزائیں قابل ذکر ہیں۔ جولائی 2019ءمیں کالعدم تنظیم جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید کو گرفتار کیا گیا اور پھر ان پر فرد جرم بھی عائد کی گئی جبکہ گزشتہ سال نومبر میں لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے حافظ سعید کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزام میں ساڑھے دس سال قید کی سزا سناتے ہوئے ان کے تمام اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔ رواں برس جنوری میں لاہور ہی کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے کمانڈر ذکی الرحمان لکھوی کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کے جرم میں پانچ سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی ستائیس سفارشات پوری کرنے اور ٹیرر فاننسنگ کی روک تھام کے لئے پندرہ معاملات پر قانون سازی کر چکا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: وسیم انور خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)