چین بھارت تعلقات۔۔۔۔

ممالک کے درمیان تنازعات نہیں بلکہ اقتصادی تعلقات قربت اور فاصلے پیدا کرتے ہیں۔ اِس حقیقت کو سمجھنے کے لئے چین بھارت تعلقات پر نظر کی جاسکتی ہے۔ لداخ کی سرحد پر بھارت اور چین کے درمیان جھڑپوں اور سنگین کشیدگی کے باوجود چین نے گزشتہ برس بھارت کے ساتھ سب سے زیادہ تجارتی شراکت داری رکھی یعنی ایک طرف چین اور بھارت کی فوجیں ایک دوسرے سے اُلجھ رہی تھیں اور جھڑپوں میں دونوں فریقین کا جانی نقصان بھی ہوا جبکہ دوسری طرف چین اور بھارت میں تجارت بھی جاری رہی۔ گذشتہ مالی سال میں بھارت نے چین سے پچاس ارب ڈالر کا سامان خریدا اور اِس عرصے میں بھارت نے چین سے 58.7ارب ڈالر مالیت کا سامان درآمد کیا جو امریکہ اور متحدہ عرب امارات سے درآمد کئے گئے سامان سے زیادہ تھا جبکہ بھارت نے چین کو 19ارب ڈالر کا سامان برآمد کیا۔ یہ تجارت اُس وقت ہو رہی تھی جب چین بھارت کے درمیان وادی گلوان میں ہونے والے تصادم میں بیس بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ ماحول تھا۔ گلوان کے واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت پر کچھ اثر ضرور پڑا لیکن بہت زیادہ نہیں۔ بھارت کی حکومت نے چین سے ہونے والی تمام سرمایہ کاری پر پابندی کے ساتھ دوسو سے زیادہ چینی ’ایپس‘ پر بھی ملک کی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے پابندی عائد کردی تھی جس میں مقبول ایپس ٹک ٹاک‘ وی چیٹ اور ویبو شامل تھے۔گزشتہ سال مئی میں انڈین حکومت نے خود انحصاری کی ایک مہم شروع کی تھی جس کا مقصد درآمدات کو کم کرنا‘ برآمدات کو بڑھانا اور مقامی صنعتوں کو فروغ دینا تھا۔ ان سبھی اقدامات کا مقصد چین پر انحصار کم کرنے کے بارے میں زیادہ توجہ دینا تھا لیکن تجارت سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان تمام اقدامات کے باوجود چین پر بھارت کا انحصار کم نہیں ہوا۔ اعداد و شمار کے مطابق بھارت اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت گزشتہ سال 77ارب ڈالر سے زیادہ رہی جو وزارت تجارت کے عارضی اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال سے کچھ کم تھی۔ اس سے پچھلے سال دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم ساڑھے پچاسی ارب ڈالر تھا۔ بھارتی حکومت نے چینی سرمایہ کاری کو ایک بار پھر اجازت دینے کے بارے میں میڈیا میں آنے والی خبروں کو غلط قرار دیا ہے۔ ویسے بھی چین بھارت میں کبھی بھی بڑا سرمایہ کار نہیں رہا۔ چین نے دوہزارتیرہ سے دوہزاربیس کے درمیانی عرصے میں بھارت میں 2ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی تھی۔بھارت خود انحصاری پر عمل کر رہا ہے لیکن خودانحصاری کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کوئی ملک درآمدات روک دے یا اپنے ہاں غیر ملکی سرمایہ کاری نہ آنے دے۔ مستقبل میں چین پر بھارت کا درآمدی انحصار برقرار رہے گا ‘ سردست بھارت چین کو اپنی برآمدات میں گیارہ فیصد تک اضافہ کرنے کے قابل ہے اور مختلف شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے سے بھارت کی برآمدی مسابقت کو بھی فروغ ملے گا۔ بھارت چین میں تیار ہونے والی بھاری مشینری‘ ٹیلی مواصلات کے ساز و سامان اور گھریلو آلات پر زیادہ انحصار کرتا ہے اور وہ چین سے درآمدی سامان کا ایک بڑا حصہ بنتا ہے۔ اس کے نتیجے میں چین کے ساتھ دوہزاربیس میں دو طرفہ تجارتی فرق قریب چالیس ارب ڈالر تھا۔ اتنا بڑا تجارتی عدم توازن بھارت کا کسی دوسرے ملک کے ساتھ نہیں۔نئے ابھرتے ہوئے عالمی اقتصادی نظام میں بھارتی قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ وہ خطے کے ممالک اور اپنے ہاں تنازعات حل کر کے اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روک کر عالمی معاشی نظام کا حصہ بن سکتا ہے۔ چین کی کوشش ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات کو تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے حل کرے ‘چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے جبکہ کورونا وبا سے پہلے بھارت عالمی معیشت میں چھٹے نمبر پر تھا۔ دو سال پہلے بھارت اور چین کے درمیان باہمی تجارت نوے ارب ڈالر سے زیادہ تھی تاہم دوہزاراُنیس میں کمی دیکھی گئی۔ بھارت چین کے ساتھ اپنا تجارتی عدم توازن کم کرنے اُور بھارت کو خود کفیل بنانا چاہتا ہے لیکن اِن دونوں اہداف کا حصول چین کی مدد و تعاون کے بغیر ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر مصباح سعید۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)