پاکستان اور قطر کے درمیان لیکویفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کی خریدوفروخت کا دس سالہ معاہدے طے پاگیا۔ ایل این جی سے متعلق نئے معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے چھبیس فروری کے روز پریس کانفرنس میں کہا کہ ”یہ دس سال کا معاہدہ ہے جس میں چار سال بعد قیمت کی تجدید ہوسکتی ہے اور یہ 10.2فیصد پر ہے جو پرانے معاہدے سے 31فیصد سستی ہے جبکہ دسمبر 2020ءتک پاکستان جو ایل این جی خرید رہا تھا وہ اوسطاً 11.90فیصد پر مل رہی تھی۔ قطر سے جاری معاہدہ پندرہ سال کا ہے جس میں دس سال کےلئے مائع گیس کی قیمت مقرر کی گئی تھی اور دس سال بعد ایل این جی کی قیمت کے حوالے سے بات چیت ہوسکتی تھی۔ آئندہ سال جنوری سے نئے معاہدے کے تحت پاکستان جس قدر ”ایل این جی‘ ‘لے گا‘اگر یہ پرانی قیمت پر لی جاتی تو سالانہ اکتیس کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر زیادہ دینے پڑتے جبکہ پاکستان کو نئی نظرثانی شدہ قیمت پر مائع گیس خریدنے سے دس سال کے عرصے میں تین ارب ڈالر سے زائد کا فائدہ ہوگا۔“ حکومت کےلئے سستی مائع گیس حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج تھا جو کامیابی سے حاصل کر لیا گیا ہے لیکن یہ واحد چیلنج نہیں بلکہ مائع گیس سے متعلق کئی دیگر چیلنجز بھی اہم ہیں ۔مائع گیس کے ذریعے توانائی کی دو صورتیں ہیں ایک کو کیلوریفک ویلیو کہا جاتا ہے جو عموماً استعمال ہوتا ہے اور معروف ہے جبکہ دوسرا کولڈ انرجی ہے جو نسبتاً کم معروف اور کم استعمال ہوتا ہے۔ گیس کو مائع گیس میں تبدیل کرنے کےلئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اِسے منفی 160 ڈگری تک ٹھنڈا کرنا پڑتا ہے جس کے بعد یہ مائع حالت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اِس کا حجم 600 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔ اِس حالت میں اِسے کنٹینروں میں بھر کر ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جایا جاتا ہے اور اِسی طرح مائع گیس کسی ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچائی جاتی ہے جہاں اِسے ترسیلی نظام کے ذریعے مختلف صارفین تک پہنچایا جاتا ہے۔ مائع گیس کی ترسیل کے دوران اِس کی ایک خاص مقدار ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے اور کئی ممالک باوجود ٹیکنالوجی ہونے کے بھی اِس پر قابو نہیں پا سکتے لیکن کچھ ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں استعمال نہ ہونے والی گیس سے استفادہ کیا جاتا ہے اِس سلسلے میں جاپان کی مثال موجود ہے جو اِس ’ٹھنڈی گیس‘ سے اِستفادہ کئی برس سے کر رہا ہے جبکہ بھارت‘ سپین اور سنگاپور بھی اِس ٹیکنالوجی کو اپنا رہے ہیں۔ سال 2017ءتک 111 میں سے 23 ایل این جی ٹرمینلز پر ہوا میں تحلیل ہونے والی گیس سے استفادہ کیا جا رہا تھا جسے محفوظ کرنے کے بعد مختلف مقاصد کےلئے استعمال میں لایا جاتا ہے اور یہ سستی توانائی حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے‘عالمی سطح پر تحفظ ماحول کے حوالے سے کوششیں کرنےوالوں نے اِس جانب توجہ دلائی ہے کہ انسانوں کو اپنے رہن سہن میں سہولیات کا اضافہ کرتے ہوئے ماحول میں آنے والی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھنی چاہئے کیونکہ موجودہ صدی کے اختتام تک دنیا میں پیدا ہونےوالی نصف بجلی صرف اور صرف ائرکنڈیشنرز میں استعمال ہو رہی ہو گی۔ انسانی ترقی اور سہولیات کا یہ پہلو ماحول دوست نہیں کہ یہ گیس کو مائع کی شکل دینے کےلئے توانائی خرچ کرتا ہے اور پھر مائع گیس کو استعمال کرنے کے عمل میں گیس کی ایک خاص مقدار ضائع کر دیتا ہے جو ماحول کےلئے اچھی نہیں۔روایتی طور پر ”کولڈ انرجی‘ ‘ایل این جی ٹرمینلز کے آس پاس ہی استعمال کی جاتی ہے کیونکہ اُنہیں ہوا سے کشید کرنے کے بعد قابل استعمال بنانے کےلئے بھی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اب ایسے طریقے اور ٹیکنالوجی بھی ایجاد ہو گئی ہے جس کی مدد سے ضائع ہونےوالی گیس کو ہوا سے حاصل کرکے نہ صرف ذخیرہ کر لیا جاتا ہے بلکہ اِس کی دور دراز مقامات تک ترسیل بھی کی جا رہی ہے۔ بہت سی صنعتوں میں نائٹروجن اور آکسیجن گیسوں کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ گیسیں ٹرکوں کے ذریعے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچائی جاتی ہیں اور اِس پہنچانے کے عمل میں ٹھنڈک کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لائق توجہ بات یہ ہے کہ ٹرکوں کے ذریعے گیس کی ترسیل پر جہاں ڈیزل استعمال ہوتا ہے وہیں گیس کو ترسیل کے عمل میں ٹھنڈا رکھنے کےلئے بھی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ طریقہ ماحول دوست نہیں ہے کیونکہ مذکورہ دونوں گیسیں ٹھنڈک کے عمل میں خارج ہوتی ہیں۔ اِس سلسلے میں ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک میں ہوا کو مختلف گیسوں سے پاک رکھنے کےلئے پلانٹ لگائے جاتے ہیں۔ مائع گیس کو مائع بنانے کےلئے منفی ایک سو اکسٹھ ڈگری سنٹی گریڈ درجہ¿ حرارت چاہئے ہوتا ہے۔ آکسیجن کو مائع بنانے کےلئے منفی ایک سو تراسی ڈگری سنٹی گریڈ درجہ¿ حرارت چاہئے ہوتا ہے اِس سلسلے میں تجویز ہے کہ نجی شعبے کو مائع گیس کی محفوظ ترسیل اور ضائع ہونےوالی گیس کے حصول میں سرمایہ کاری کے عمل میں شریک کیا جائے کیونکہ صرف اِسی صورت سے حکومت نہ صرف مائع گیس کی بچت کر سکے گی بلکہ اِس کے لئے توانائی سے مالی فوائد حاصل کرنے کے عمل میں بھی بہتری آئے گی۔ (مضمون نگار انرجی پلاننگ کمیشن کے سابق رکن ہیں اور پاکستان میں توانائی سے جڑے مسائل‘ کامیابیوں اور درپیش چیلنجز سے متعلق کتاب کے مصنف ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سید اختر علی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)