دہشت گردی کی مالی معاونت کے ذرائع اور وسائل میں پانچ ہزار روپے مالیت کا کرنسی نوٹ اور بڑی مالیت کے پرائز بانڈ ممکنہ طور پر استعمال ہوسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے پچیس ہزار اور چالیس ہزار کے پرائز بانڈز ختم کر دیئے ہیں لیکن پانچ ہزار روپے کا کرنسی نوٹ ختم نہیں کیا گیا جو صرف دہشت گردی ہی نہیں بلکہ مالی بدعنوانیوں اور رشوت ستانی میں بھی ممکنہ طور پر استعمال ہوتا ہے چونکہ بڑی مالیت کے کرنسی نوٹ ہونے کی وجہ سے اگر ایک لاکھ روپے منتقل کرنا ہوں تو پانچ ہزار روپے کے صرف بیس نوٹ درکار ہوں گے جو ایک سگریٹ کی ڈبی میں بھی باآسانی سما سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر ایک لاکھ روپے کے لئے ایک ہزار روپے مالیت کے نوٹ دیئے جائیں تو اس مقصد کیلئے ایک سو نوٹ درکار ہوں گے جبکہ اگر ایک سو روپے مالیت کے کرنسی نوٹ ہوں تو سو روپے کی دس گڈیاں درکار ہوں گی۔بڑے نوٹ اور پرائز بانڈز سرمایہ کاری کا بھی ذریعہ ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں پرائز بانڈز کے نمبروں کی فروخت ایک عام کاروبار ہے جہاں کسی بھی چھوٹی بڑی مالیت کے بانڈ میں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ اگر مقررہ تاریخ پر نمبر خریدنے والے کا بانڈ نکل آئے تو اُسے پرچی پر درج تناسب کے حساب سے انعامی رقم دی جاتی ہے اور انعام نہ نکلنے کی صورت میں پرچی ضائع ہوجاتی ہے۔ بڑی مالیت کے بانڈ پر انعام کی اصل رقم کے ساتھ کئی لاکھ اضافہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جس پرائز بانڈ پر انعام نکل آتا ہے اُسے کاروباری و سیاسی شخصیات کئی لاکھ روپے اضافی ادا کر کے خرید لیتی ہے اور یوں ’کالا دھن (ناجائز سرمایہ)‘ سفید (جائز) ہوجاتا ہے۔پاکستان پر سخت گیر مالی نظم و ضبط لاگو کرنے کے لئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا دباؤ ہے۔ جس کی وجہ سے حکومت مالیاتی نظام میں موجود نقائص دور کر رہی ہے اور اِنہی کوششوں کا حصہ ہے کہ وزارت ِخزانہ کے ماتحت قومی بچت ڈائریکٹریٹ نے پچیس ہزار اور چالیس ہزار روپے مالیت کے پرائز بانڈز بتدریج واپس لینے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ جو بھی اب اس مالیت کے پرائز بانڈ لینے کا خواہش مند ہوگا اس کو اپنے شاختی کارڈ کی کاپی‘ بینک اکاؤنٹ کی بنیادی تفصیل اور ٹیکس سرٹیفکیٹ فراہم کرنا ہوگا۔ اس وقت صرف چالیس ہزار روپے مالیت کے پرائز بانڈز ہی سرمایہ کاری کے لئے دستیاب ہیں۔سٹیٹ بینک نے بڑی مالیت کے پرائز بانڈ کی رجسٹریشن شروع کر رکھی ہے۔ اس رجسٹریشن سے یہ پرائز بانڈز بغیر ملکیت کے نہیں رہے ہیں اور اگر ان پرائز بانڈز پر کوئی انعام نکل بھی آئے گا تو یہ انعام حاصل کرنے کا حق اسی فرد کا ہوگا جس کے نام یہ بانڈ رجسٹر ہوگا۔ اس طرح انعام نکلنے والے بانڈ کو کسی دوسرے کو فروخت نہیں کیا جاسکے گا۔ فنانس ڈویژن نے پچیس ہزار روپے مالیت کے پرائز بانڈز کو اکتیس مئی دوہزاراکیس سے غیر فعال کردیا ہے مگر اعلان کے مطابق تاحال ان بانڈز کو رجسٹر کرنے کا عمل شروع نہیں ہوا ہے۔ پرائز بانڈز کے حوالے سے تو حکومت ِپاکستان نے اقدامات کئے ہیں مگر پانچ ہزار روپے مالیت کے کرنسی نوٹوں کے حوالے سے اب تک سٹیٹ بینک نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔بڑی مالیت کے کرنسی نوٹوں کا خاتمہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اگر پانچ ہزار کا نوٹ ختم نہ کیا گیا تو پاکستانی معیشت کو نہ تو دستاویزی کیا جاسکے گا اور نہ ہی پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالا جاسکے گا۔ تعمیراتی صنعت کو دیئے گئے خصوصی مراعاتی پیکج میں بھی یہ شرط رکھی گئی ہے کہ بینک کے ذریعے لین دین ہو اور نقد نہ ہو۔ توقع ہے کہ تعمیراتی صنعت میں تین ہزار ارب روپے کا سرمایہ آئے گا جس میں سے ایک ہزار ارب روپے غیر دستاویزی ہوگا۔ اقتصادی جائزے (اکنامک سروے) کے مطابق پاکستان کی کل خام پیداوار (جی ڈی پی) ’تین سو ارب ڈالر‘ ہے جبکہ دراصل حقیقی جی ڈی پی ساڑھے چار سو ارب ڈالر ہے۔ معیشت میں ڈیڑھ سو ارب ڈالر غیر دستاویزی ہے اس میں سگریٹ‘ چینی‘ چاول، سبزی‘ زراعت اور دیگر شعبہ جات شامل ہیں جو دستاویزی معیشت کا حصہ نہیں ہیں۔ اندیشہ یہ ہے کہ اگر حکومت نے پانچ ہزار کا کرنسی نوٹ ختم کیا تو لوگ اپنا کالا دھن (ناجائز) اور سفید دھن (جائز سرمایہ) امریکی ڈالروں میں رکھنا شروع کردیں گے۔ سردست معیشت میں بینکاری نظام کے ذریعے لین دین کی بجائے نقد لین دین کا رجحان بڑھ رہا ہے اور حقیقت کی تصدیق سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار (مانیٹری ڈیٹا) سے بھی ہوتی ہے۔ ملک میں زیرِ گردش رقم چھ سو چالیس ارب روپے ہے جبکہ بینکوں میں موجود کھاتوں کی مالیت پندرہ سو ارب روپے سے زائد ہے یعنی جتنی کرنسی زیرِ گردش ہے اس کا تقریباً دواعشاریہ تین گنا رقم بینکوں میں موجود ہے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں میں یہ شرح کئی گنا زیادہ ہوتی ہے یعنی معیشت میں بینکاری نظام کے بجائے نقد لین دین بڑھ رہا ہے۔ اِس حقیقت سے کوئی اِنکار نہیں کر سکتا کہ ملک میں متوازی بینکاری کا نظام چل رہا ہے جو ’حوالہ ہنڈی‘ کی طرز پر کام کرتا ہے‘ جس کے ذریعے نقد ادائیگی انتہائی معمولی معاوضے پر ہوسکتی ہے اور یہ عمل صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ مغربی ممالک کے معاشی نظام کے لئے خطرہ اور چیلنج ہے۔ بڑی مالیت کے کرنسی نوٹ ٹیکس کی چوری اور بدعنوانی کی وجہ سے عوامی خدمات کیلئے سرمائے کی قلت اور معیشت میں بحران پیدا کرتے ہیں اور محتاط اندازے کے مطابق سالانہ ایک ہزار ارب ڈالر عالمی سطح پر غیر قانونی طور پر سرحد پار منتقل ہوتے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر واسع سعید۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)