امریکی سفارتکاری: نئے انداز۔۔۔۔

امریکہ سعودی عرب تعلقات تاریخ کے نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ نئے امریکی صدر نے پہلے یمن جنگ میں سعودی عرب کی مدد ختم کی پھر اسلحے کی فروخت کا معاہدہ ختم یا منجمد کیا اور اب سعودی ولی عہد جو کہ عملی طور پر بادشاہ کے اختیارات سنبھالے ہوئے ہیںکے حوالے سے کچھ اقدامات کئے ہیں۔ وائٹ ہاو¿س نے شاہ سلمان سے ٹیلیفون پر رابطے سے پہلے یہ وضاحت کی کہ صدر بائیڈن شاہ سلمان کے ساتھ بات کریں گے اور ولی عہد کسی بھی طرح ان کے ہم منصب نہیں۔ اس کے ساتھ ہی کہا گیا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ اس کےلئے تعلقات ’ری سیٹ‘ کرنے کی اصطلاح استعمال کی گئی۔امریکہ اور سعودی عرب تعلقات میں سب سے ڈرامائی موڑ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر امریکی خفیہ ادارے کی رپورٹ کا اجرا ہے۔ امریکی کانگریس نے اس رپورٹ کی اشاعت لازم قرار دی تھی لیکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس رپورٹ کی اشاعت روک رکھی تھی۔ مذکورہ رپورٹ میں کچھ بھی نیا نہیں۔ سعودی ولی عہد کے خلاف کوئی ثبوت بھی نہیں‘ صرف حالات و واقعات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سعودی شہزادے نے جمال خاشقجی کی گرفتاری یا قتل کا حکم دیا تھا۔ یہ وہی نتیجہ ہے جو دو سال پہلے اخذ کرکے میڈیا کو بتایا جاچکا ہے۔ اس رپورٹ کے اجرا ءسے یوں لگتا ہے کہ بائیڈن سعودی ولی عہد کی ساکھ خراب کرنا چاہتے ہیں اور یہ ان ڈیموکریٹ اراکین کانگریس کے ایما پر کیا جا رہا ہے جو سعودی ولی عہد کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ قریبی اور ذاتی مراسم کی سزا دینا چاہتے ہیں۔امریکی اور یورپی میڈیا میں بن سلمان کو بادشاہت سنبھالنے سے روکنے کی باتیں سعودی سیاسی معاملات اور شاہی خاندان سے ناواقفیت کی بنیاد پر ہیں۔ شاہ سلمان کی صحت زیادہ اچھی نہیں اور امورِ سلطنت انہوں نے خود ولی عہد کے حوالے کر رکھے ہیں۔ بن سلمان کی گرفت سعودی نظام پر مضبوط ہے‘ بن نائف کو ولی عہد کی جگہ لانے کی سوچ اور بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے ایسے اشارے سعودی عرب میں نئے کریک ڈاو¿ن کو جنم دیں گے اور شاہی خاندان کے اندر بغاوت کچلنے کی ایک بڑی مہم پہلے ہی انجام دی جا چکی ہے‘ دوبارہ ایسی کوئی مہم حالات کو مزید خطرناک بنا دے گی یعنی سعودی عرب میں کسی بھی طرح کا عدم استحکام خود امریکی مفاد میں بھی نہیں ہوگا۔ اگر بائیڈن کے دورِ صدارت میں ہی بن سلمان بادشاہ بنتے ہیں‘ جس کے امکانات موجود ہیں‘ تو امریکہ اور سعودی عرب تعلقات میں تلخیاں مزید بڑھیں گی۔ بائیڈن نے یمن جنگ میں سعودی عرب کی مدد ختم کرنے کا اعلان کیا اور حوثی باغیوں کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ واپس لیا‘ اس سے ایران کو فائدہ پہنچا اور حوثیوں کے حوصلے بلند ہوئے یوں سعودی عرب پر حملے بڑھ گئے۔ ان حالات میں سعودی عرب کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ امریکہ پر اپنا انحصار ختم کرکے نئے دوست تلاش کرے اور یہ کام شروع بھی ہوچکا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیل، سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل چار ملکی مشترکہ دفاعی اتحاد پر مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ یہ مذاکرات بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے ایرانی جوہری پروگرام پر بین الاقوامی معاہدے کی طرف واپسی کے اعلانات کے بعد شروع ہوئے۔ سعودی عرب دفاع کےلئے روس اور چین کے دروازے بھی کھٹکھٹا سکتا ہے اور اسرائیل کےساتھ مزید قربت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے کیونکہ دونوں ملک ایران کے جوہری پروگرام کو یکساں خطرہ تصور کرتے ہیں۔ دوسری طرف بائیڈن انتظامیہ سعودی عرب کے حوالے سے ایک حد سے آگے جانے کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ سعودی عرب تیل کی منڈی میں استحکام کا ضامن ہے بلکہ خطے کی دیگر ریاستوں کو مدد فراہم کرکے علاقائی استحکام کو بھی یقینی بنانے میں مدد دیتا ہے۔ حالیہ اسرائیل عرب تعلقات کی بحالی کےلئے معاہدات ابراہیمی میں سعودی عرب نے پس پردہ رہ کر اہم کردار ادا کیا۔ یہ بات بائیڈن انتظامیہ سے ڈھکی چھپی نہیں اسی لئے آئندہ کے اقدامات سعودی عرب یا ولی عہد کو کچھ معاملات میں محدود تو کرسکتے ہیں لیکن تعلقات ٹوٹنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: زاہد ثمین علوی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)