اسلام آباد: مالی استحکام کے لیے چند خطرات کو اجاگر کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے اپنے نصف سال (جولائی تا دسمبر) کے مالی خسارے کو جی ڈی پی کا 3.1 فیصد، یا اب تک کی سب سے زیادہ 13 کھرب 93 ارب روپے بتایا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پبلک فنانس ایکٹ 2019 کے تحت پارلیمنٹ میں پیش کی گئی اپنی ششماہی بجٹ جائزہ رپورٹ میں وزارت خزانہ نے مالی استحکام کے اقدامات کے دوران زیادہ ریونیو، کنٹرول شدہ اخراجات کا سہرا لیا لیکن اس بات کا اعتراف کیا کہ 'مالی استحکام کے لیے چند خطرات موجود ہیں'۔
وزارت نے کہا کہ مالی حیثیت کا انحصار کووڈ 19 وبائی بیماری کے مقامی اور بین الاقوامی ارتقا پر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ توقع سے زیادہ تیزی سے جاری معاشی بحالی سے بھی ان پٹ میں اضافے کا امکان ہے۔
رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران غیر منقولہ اقتصادی محرک پیکیج سے وبائی بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے 116 ارب روپے کی رقم فراہم کی گئی تھی جس میں سے 25 ارب روپے کی ویکسینز کی خریداری بھی شامل ہے۔
مزید یہ کہ معاشرے کے کمزور طبقات کو امداد فراہم کرنے کے لیے احساس پروگرام کے تحت 64 ارب روپے استعمال کیے گئے۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ حکومت نے اخراجات کی ترجیحات کے مطابق ترقیاتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے فنڈز جاری کرنے کی سہولت بخش پالیسی اپنائی ہے۔
بہر حال نصف سالہ مالی حیثیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سالانہ مالی اہداف کو پورا کرنے کے لیے عوامل پٹری پر رہیں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی استحکام، مستحکم شرح تبادلہ، کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری اور بہتر مالیاتی نظم و نسق نے ایک امید افزا معاشی نقطہ نظر پیش کیا۔
کرنٹ اکاؤنٹ کے بیلنس میں بہتری برقرار ہے جو سال کی پہلی ششماہی کے دوران ایک ارب 10 کروڑ ڈالر (جی ڈی پی کا 0.8 فیصد) سرپلس رہا۔
سالانہ کی بنیاد پر ٹیکس وصولی میں پہلی ششماہی میں 5.6 فیصد اضافہ ہوا تاہم کورونا وائرس میں اضافے کے باوجود فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اپنے نصف سال کے ہدف کا تقریباً 99 حاصل کرلیا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے منافع میں کمی اور سیلولر لائسنس کی تجدید کی فیسوں کی عدم ادائیگی کے باوجود نان ٹیکس ریونیو گزشتہ سال کی وصولی کے مترادف رہے جبکہ کفایت شعاری اقدامات اور سخت مالی نظم و ضبط کے ذریعے موجودہ اخراجات پر قابو پالیا گیا۔
وزارت نے کہا کہ اضافی گرانٹ روک کر اور کفایت شعاری اقدامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے سول حکومت کو چلانے پر خرچ کو 40 فیصد تک کم کردیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اضافی فنڈز کو صرف ضمنی گرانٹ کے طور پر منظور کیا گیا ہے جو امدادی اقدامات میں توسیع کے لیے گزشتہ مالی سال کے اقتصادی محرک پیکیج کے تحت غیر استعمال رہا۔