صدرِ مملکت عارف علوی نے ”میری ٹائم کانفرنس“ سے خطاب میں کہا تھا کہ ”جب تک کشمیر جیسے تنازعات حل نہیں ہوں گے‘ سمندر میں بھی امن قائم نہیں ہوگا۔ خلیج فارس‘ بحیرہ¿ جنوبی چین اور بحیرہ¿ ہند پُرامن نہ ہوسکیں گے اور خطے میں اعتماد کی فضا کے بغیر تعاون محدود رہے گا۔“ اگر صدرِ مملکت کے الفاظ کو سادہ طور پر بیان کیا جائے تو بات کچھ یوں بنتی ہے کہ کشمیر کا تنازعہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان نہیں ہے بلکہ چین بھی اس کا ایک فریق ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کے وہ علاقے جو بھارت کے قبضے میں ہیں ان میں سے لداخ پر چین کا دعویٰ ہے۔ دونوں ملکوں میں جنگ کے بعد متنازعہ علاقے کو ’لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ کے ذریعے تقسیم کیا ہوا ہے۔ گزشتہ سال مئی میں شروع ہونے والے تنازع میں بھارت کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دنیا کے بلند ترین محاذ پر ہونے والی کشیدگی کس طرح سمندروں میں کشیدگی پیدا کرسکتی ہے؟ یہ جاننے کے لئے ستائیس فروری دوہزاراُنیس کے واقعے کے بعد کے حالات کا جائزہ لینا ہوگا۔ جب بھارتی فضائیہ کو پاک فضائیہ کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس شرمندگی کا بدلہ لینے کے لئے اس نے اپنی بحریہ کو متحرک کیا اور پاکستان کی جانب ایک آبدوز بھیجی جو پاکستان نیوی ایوی ایشن کے نگرانی پر معمور طیاروں نے پکڑ لی اور یوں بھارت کا سمندر کے ذریعے بھی پاکستان پر حملہ کرکے بدلہ لینے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ اگر پاکستان نیوی بھارتی آبدوز کی نشاندہی نہ کرتی تو خطہ بدترین جنگ کا شکار ہوجاتا اور یہ تنازعہ ایٹمی جنگ تک پہنچ سکتا تھا۔ سینیٹر شیریں رحمان کا اسی کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ ’چین دنیا کے اقتصادی قائد کے طور پر ابھر رہا ہے جبکہ اس سے پہلے امریکہ معاشی اور فوجی قائد تھا۔ شیریں رحمان نے بیلٹ اینڈ روڈ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ”یورپ چین کو حریف نہیں حلیف کے طور پر دیکھ رہا ہے مگر امریکہ کو چین کا ابھرنا پسند نہیں۔“ شیریں رحمان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکہ میں قیادت کی تبدیلی کے باوجود صدر جو بائیڈن بھی چین سے متعلق صدر ٹرمپ کے ہی راستے پر گامزن رہیں گے۔ امریکہ کو چین کی اُبھرتی ہوئی معاشی طاقت کو روکنے کے لئے بھارت کی ضرورت ہے۔ امریکہ چین کے مقابلے کے لئے بھارت کے ساتھ دفاعی اور اسٹریٹجک معاہدے کررہا ہے۔‘ ماہرین کا خیال ہے کہ جس طرح سے بھارت نے ستائیس فروری کے معرکے میں ہزمیت اٹھانے کے بعد سمندر سے حملے کی کوشش کی تھی‘ اسی طرح چین کے ساتھ تنازع پر بھی بھارت نہ صرف بحیرہ¿ عرب‘ بحیرہ¿ ہند اور بحیرہ¿ جنوبی چین میں چینی مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ وہ سمندری تجارت اور امن کو تباہ کرکے چین اور پاکستان کو مشترکہ طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کی خبر پر بھارتی اور پاکستانی صحافیوں کے ایک مشترکہ گروپ میں بھارتی حکومت کی پریس ریلیز شیئر کی گئی جس پر ممبئی سے تعلق رکھنے والے بھارتی صحافی جیتن ڈیسائی کا کہنا تھا کہ ’یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کوشش نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے کی گئی ہے‘۔ بھارتی صحافی کی اس رائے پر میں نے لکھا کہ ’ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ بائیڈن نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس دلایا ہو کہ بھارت کو پاکستان اور چین کے ساتھ ایک وقت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اور بھارت کو اپنی لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر توجہ دینی چاہئے تاکہ وہاں ہونے والی پسپائی کو روک سکے۔‘ جیتن کی جانب سے ’اتفاق‘ کے میسج کے بعد اب واٹس ایپ گروپ میں بھی ایسی ہی خاموشی چھا گئی ہے جیسا کہ کشمیر پر لائن آف کنٹرول پر ڈی جی ایم او کے مذاکرات کے بعد چھائی ہوئی ہے مگر کیا اس جنگ بندی کے معاہدے سے خطے میں امن قائم ہوگیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا پورے تجزیے کے بعد جواب تلاش کرنا ہوگا۔ اس جنگ بندی کے معاہدے کے بعد صدر پرویز مشرف کے ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں بھارت کی جانب سے یہ بیانیہ اختیار کیا گیا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈالیں اور تجارت کریں مگر اس وقت کے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے صدر چوہدری سعید کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا اس لئے وہ حکومت کے اس بیانیے سے متفق نہیں تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ’کشمیر کا ایک واقع دوبارہ سے حالات کو کشیدگی کی جانب لے جائے گا‘ اس لئے پائیدار امن کے لئے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ناگزیر ہے۔‘ آج بھی جنگ بندی کے معاہدے کی تجدید کے باوجود اس کی دوبارہ خلاف ورزی کے امکانات موجود ہیں اور یہ تنازعہ کشمیر کے پہاڑوں سے لے کر سمندروں تک پھیل سکتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: بریگیڈئر (ر) وجاہت خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)