ماہی گیروں کے تحفظات۔۔۔

پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت ہونے والے ترقیاتی کاموں میں ماہی گیری کا شعبہ بھی شامل ہے جس سے متعلق بحیرہ عرب پر واقع شہر گوادر کے ماہی گیر چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے بارے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ سی پیک کے وسط میں تجارتی مرکز کے ماہی گیر صنعتی پیمانے پر ماہی گیری کو اپنے حقوق پر وار سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی قریب ایک ہزارکلومیٹر ساحلی پٹی پر رہنے والے متعدد ماہی گیروں کو مچھلی پکڑنے والے مقامی اور غیر ملکی جہازوں کے تباہ کن اثرات نے پہلے ہی بدحال کر رکھا ہے کیونکہ صنعتی پیمانے پر مچھلیاں پکڑے سے اِن کی نسل کشی ہوتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ چین پاکستان میں ماہی گیری کی مقامی صنعت کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتا ہے اور اِس سلسلے میں چین کے قونصل جنرل لی بیجیان کا بیان آن دی ریکارڈ موجود ہے کہ ”جب آپ ماہی گیری کی بات کرتے ہیں تو آپ (پاکستان) کے پاس بے شمار وسائل موجود ہیں۔ چینی سرمایہ کار پاکستان میں ماہی گیری کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔“ چین گوادر میں ماہی گیروں کے لئے بڑی کشتیاں اور ماہی گیری کے جدید آلات فراہم کرنے اور مچھلیوں کی پروسیسنگ فیکٹریاں بنانے میں معاونت کو ضروری سمجھتا ہے تاکہ پاکستان سے ’سی فوڈ‘ برآمد کیا جائے اور ماہی گیری کی صلاحیت میں اضافہ ممکن ہو جس سے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ سال دوہزارپندرہ میں اقوامِ متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے پاکستان کے ماہی گیروں کے بارے میں ایک تحقیق میں اِس بات کا انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں مچھلی پکڑنے کے پائیدار طریقے استعمال نہیں ہو رہے۔ جس سے نتیجہ اخذ کیا گیا کہ پاکستان کے سمندری وسائل بے دریغ استعمال ہورہے ہیں اور صورتحال ’ماحولیاتی تباہی‘ کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ اگرچہ لی بیجان نے ماحولیاتی نظام کے تحفظ کی بات کی تھی تاہم یہ واضح نہیں کہ چین سمندری حیات اور بلوچستان میں مقامی ماہی گیروں کے تحفظ کےلئے کیا اقدامات کرے گا۔ ملک میں سمندری غذا کی بڑھتی ہوئی طلب کے ساتھ چین ماہی گیری کی بڑی صنعت بھی ہے۔ برطانیہ کے اوورسیز ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ (او ڈی آئی) کے مطابق گہرے پانیوں میں مچھلی پکڑنے والا چینی بیڑا سترہ ہزار جہازوں پر مشتمل ہے‘ جو کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ بین الاقوامی تحقیقات نے چینی جہازوں کی جانب سے اپنائے جانے والے ماہی گیری کے تباہ کن طریقوں کو متعدد ممالک میں مچھلیوں کے ذخائر ختم ہوجانے کا سبب ٹھہرایا ہے۔ اسٹاک ہوم یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ سال دوہزارتیس تک‘ چین کو متوقع گھریلو استعمال پورا کرنے کے لئے اٹھارہ ملین ٹن اضافی سمندری غذا کی ضرورت ہوگی اور یہ ضرورت وہ دور دراز پانیوں میں ماہی گیری کے آپریشنز کو بڑھا کر پورا کرے گا۔ پاکستانی ماہی گیر کئی دہائیوں سے گہرے سمندر میں شکار پر اِحتجاج کرتے آئے ہیں اور حالیہ برسوں میں ان کے مچھلی پکڑنے میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ گوادر میں چین نے سی پیک منصوبوں کے ذریعے اربوں کی سرمایہ کاری کی‘ یہاں کی بندرگاہ کو چین کے تجارتی عزائم کا راستہ بتایا جاتا ہے۔ ان ترقیاتی کاموں کی وجہ سے مقامی افراد پہلے ہی بے گھر ہوچکے ہیں۔ کراچی بندرگاہ پر مچھلی پکڑنے والے چینی ٹرالروں کی موجودگی کے بارے میں بلوچ ماہی گیروں کے خدشات کا بہت سے دیگر ماہی گیروں نے بھی اِظہار کیا ہے۔ اکتوبر دوہزاربیس میں چینی جہازوں کی آمد نے احتجاج کو جنم دیا تھا کیونکہ مقامی ماہی گیروں کو خدشہ ہے کہ وفاقی حکومت خفیہ طور پر اِن پانیوں میں چینی جہازوں کو مچھلی پکڑنے کی اجازت دے رہی ہے چونکہ حکومت کی طرف سے مذکورہ بحری جہازوں کو ماہی گیری کے لائسنس نہ دینے کا ایسا کوئی اعلان نہیں ہوا‘ لہٰذا ماہی گیروں کو بدترین صورتحال کا اندیشہ ہے۔وفاقی حکومت نے دوہزاراٹھارہ میں ماہی گیری سے متعلق پالیسی بنائی تھی لیکن اسے ماہی گیروں اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کا کہنا ہے کہ سال دوہزاراٹھارہ کی پالیسی ملک کے ایکسکلوزو اکنامک زون (ای ای زیڈ) کے انتظامات کے لئے بنائی گئی تھی۔ دوہزاراٹھارہ کی پالیسی اسی مقصد کے لئے بنائی گئی تھی کہ ’ای ای زیڈ‘ ماہی گیری کا انتظام کیا جائے لیکن ماہی گیروں نے سماجی و معاشی نتائج کی بنا پر اس کی مزاحمت کی۔ ہم اپنی ماہی گیری میں ترمیم کرسکتے ہیں اور کرنا چاہئے لیکن اچانک یہ کرنا ہزاروں لوگوں کے لئے تباہ کن ہوگا۔ کراچی کی بندرگاہ پر چینی ٹرالروں کی موجودگی سے پریشان حال ماہی گیر خود کو مزید دیوار سے لگتا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ چین کی کمپنیاں پاکستان کے پانیوں میں مچھلی پکڑنے کے خواہشمند ہیں کیونکہ وہ بغیر ڈیوٹی دیئے مچھلیوں کو شکار کر کے اپنے ملک بھیج سکتے ہیں۔ اگر کوئی چینی جہاز یہاں مچھلی پکڑنے کے لئے آتا ہے تو درآمد شدہ مچھلی ڈیوٹی فری ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر چینی جہاز بندرگاہ پرموجود ہیں‘ تو ان کا نام بحر ہند میں مچھلی پکڑنے اور اسے بغیر ڈیوٹی کے فروخت کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ٹرالر بھاری وزن کے ساتھ بڑے جال استعمال کرتے ہیں جو اپنے راستے میں ہر چیز کو اکٹھا کرنے کےلئے سمندری فرش پر گھسیٹے جاتے ہیں۔ اس طریقے کی ماہی گیری کو انتہائی نقصان دہ قرار دیا جاتا ہے۔ تحفظ ماحول کی عالمی تنظیم ’آئی یو سی این‘ کے مطابق پاکستان کی ماہی گیری صنعت کو کچھ اہم امور کو حل کرنے سے فائدہ ہوگا‘ ان میں ایک خاص حد سے زیادہ مچھلی پکڑنا‘ باریک جالوں کا استعمال‘ کشتیوں اور ٹرالروں کی زیادہ تعداد‘ مینگروو میں ہونے والی کمی اور ساحلی ماہی گیری کے علاقوں کی آلودگی شامل ہیں۔ پاکستانی ماہی گیروں کو تربیت یافتہ‘ تعلیم یافتہ اور ماہی گیری کے جدید آلات سے آراستہ ہونا چاہئے جبکہ اِن کی بڑی تعداد ’اَن پڑھ‘ ہے۔(بشکریہ: تھرڈ پول۔ تحریر: اکبر نوتزئی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)