عوامی جمہوریہ چین کی حکومت نے ملک سے انتہائی غربت کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ ریاست کی جانب سے جاری کئے گئے مواد کے مطابق قریب دس کروڑ لوگوں کو انتہائی غربت سے نکالا گیا ہے یعنی ان کی یومیہ آمدن اب ایک ڈالر اور ستر سینٹ سے کم نہیں ہے‘ کمیونسٹ پارٹی کے اخبار ’پیپلز ڈیلی‘ نے صدر ژی جن پنگ کی حکومت کی جانب سے مقررہ وقت سے ایک مہینہ قبل اس کامیابی کو حاصل کرنے پر تین صفحات پر مبنی ضمیمہ شائع کیا۔ ایک متحرک رہنما نے چین کو ایک نئے عہد میں لے جانے کا وعدہ پورا کردیا۔ اخبار نے لکھا کہ ہم صدیوں سے انتہائی غربت کے مسئلے سے نبرد آزما تھے اور اب یہ مسئلہ ختم ہوگیا ہے۔ دوسری جانب صدر ژی جن پنگ چاہتے ہیں کہ ان کی قوم اپنے مرکز پر متحد ہوجائے اور ”چینی قوم کے دوبارہ عروج کے خواب کا ادراک رکھے۔“ تاہم کچھ سوالات ہنوز جواب طلب ہیں۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق چین نے اب تک ”انتہائی غربت‘‘کی تعریف کرنے کے پیمانے جاری نہیں کئے۔ ماضی میں بھی چین عالمی بینک کے متعین کردہ معیارات سے مختلف معیارات کا استعمال کرتا رہا ہے۔ اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے کہ چین انتہائی غربت کے خاتمے کو کس طرح برقرار رکھ سکے گا کیونکہ عالمی بینک کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے اس سال دنیا بھر میں مزید پندرہ کروڑ افراد غربت کا شکار ہوں گے۔ اس بارے میں بھی کچھ سوالات موجود ہیں کہ آخر چین نے ملک میں غریبوں کی تعداد کس طرح کم کی ہے۔ ایک مغربی صحافی کی جانب سے ترتیب دی گئی رپورٹ میں سنکیانگ کی سرحد کے ساتھ واقع گینسو صوبے کے ایک گاؤں کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہاں کے سینکڑوں رہائشیوں کو ان کے گاؤں سے زبردستی نکال کر انہیں ایک دوسری جگہ موجود بلند و بالا عمارتوں میں منتقل کردیا گیا جہاں بجلی اور پانی کی سہولت موجود تھی۔ ان گاؤں والوں کو اب یہ پریشانی لاحق ہے کہ وہ مستقبل میں اس رہائش کے اخراجات کیسے برداشت کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ سنکیانگ کا علاقہ مقامی ایغوروں کا ہے جن کی اکثریت کو چینی مسلمانوں کیخلاف اٹھائے جانیوالے اقدامات کے تحت حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو کم غریب کرنیکا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہزاروں افراد کو حراستی مراکز میں قید کردیا جائے تاکہ ان کے اثاثے باقی رہ جانے لوگوں کیلئے دستیاب ہو جائیں۔ یہ سال چینی رہنماؤں کیلئے بہت اہم ہے‘ اس سال چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ایک سو سال مکمل ہو رہے ہیں اور وہ اس سال کو یادگار بنانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس سال چین سپر پاور سمجھے جانے والے ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر کھڑا ہو لیکن یہ خواب ایک طرح کا دھوکہ ہے۔ خواب خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں‘ یہ ہمیں حقیقت پسند نہیں رہنے دیتے‘ آبادی کے مطالعے یہ بتاتے ہیں کہ چین میں شرح پیدائش میں کمی آرہی ہے یعنی وہاں کام کیلئے افرادی قوت حسب طلب دستیاب نہیں‘چین میں بڑھتی ہوئی اجرت کی وجہ سے پیداواری کمپنیوں نے افریقہ اور میکسیکو جیسے سستے علاقوں کا رخ کرلیا ہے۔ تو کیا چین عالمی سطح پر اپنی حیثیت برقرار رکھ سکے گا؟ پاکستان کیلئے سوال یہ نہیں ہے کہ آیا چینیوں نے غربت کے خاتمے اور عوام کی بہتری کے اپنے خواب کو تکمیل تک کیسے پہنچایا یا نہیں پہنچایا بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ خواب خود چین کیلئے بہت بڑا اور مہنگا تو ثابت نہیں ہو رہا؟ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رافعہ ذکریا۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)