کسی کی اقتصادی نظام کی بنیاد اُس کی ”توانائی سے متعلق حکمت عملی“ ہوتی ہے اور وہاں کی اقتصادیات میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ حکومتی فیصلہ سازوں کی آمدن و اخراجات کے درمیان توازن موجود ہے یا نہیں۔ اگر حکومت کی آمدنی کم لیکن اخراجات زیادہ ہوں تو ایسی صورت میں حکمرانی دیوالیہ تصور کی جاتی ہے۔ لائق توجہ امر یہ ہے کہ دیوالیہ ہونے کا تعلق صرف مالی امور میں خسارے سے نہیں بلکہ دیوالیہ اُس حالت کو بھی کہتے ہیں جو خراب طرزحکمرانی ہوتا ہے اور اِسی خراب طرز حکمرانی سے مسائل و بحران اور تنازعات جنم لیتے ہیں۔ جہاں کہیں طرزحکمرانی دیوالیہ پن کا شکار ہوگی وہاں گردشی قرض پایا جائے گا اور وہاں نجی ادارے حکومتی وسائل پر حاوی دکھائی دیں گے۔ پاکستان کی صورتحال بھی یہی ہے کہ ایک طرف حکومتی ادارے خزانے پر بوجھ ہیں تو دوسری طرف نجی ادارے قومی وسائل کو لوٹ رہے ہیں۔ پاکستان کا گردشی قرض ہر دن بڑھ رہا ہے۔ سال 2018ءمیں مجموعی گردشی قرض 1.1 کھرب روپے تھا جس سے متعلق اِس اندیشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ سال2025ءتک یہ بڑھ کر 4 کھرب ہو جائے گا۔ فی الوقت یہ گردشی قرض 2.4 کھرب روپے ہو چکا ہے۔ اِسی طرح نجی بجلی گھروں کو اُن کی پیداواری صلاحیت (کیپسٹی پیمنٹ) کی مد میں بھی ادائیگیاں کی جاتی ہیں اور اِس مد میں ادائیگیوں کا مطلب یہ ہے کہ چاہے نجی گھروں سے بجلی خریدی جائے یا نہ خریدی جائے لیکن اُنہیں اُن کی پیداواری صلاحیت کے مطابق حکومت ادائیگی کرنے کی پابند ہوگی۔ سال 2018ءمیں کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں 664 ارب روپے واجب الادا تھے جو بڑھ کر 900 ارب روپے ہو چکے ہیں اور اِس بات کی پیشگوئی کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند برس میں کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں حکومت کی مالی ذمہ داری کا حجم 1.5 کھرب روپے سالانہ تک پہنچ جائے گا۔ تصورکریں کہ پاکستان کی کل خام سالانہ پیداوار (جی ڈی پی) کا 3 فیصد کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں خرچ ہو رہا ہے جبکہ گردشی قرض ملک کی کل خام سالانہ پیداوار (جی ڈی پی) کے 8 فیصد کے مساوی ہے۔پاکستان میں توانائی کی پیداوار نہ صرف مہنگی ہے بلکہ ماحول دوست بھی نہیں ہے۔ بجلی گھر کوئلے (سستے ذریعے) سے پیداوار کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے بڑی مقدار میں ماحول کے لئے نقصان دہ گیسوں (دھویں) کا اخراج ہوتا ہے۔ مہنگی بجلی ہونے کی وجہ نجی اداروں سے کئے جانے والے معاہدے ہیں جو ملک کی بجائے نجی اداروں کے مفاد میں کئے گئے ہیں۔پاکستان میں بجلیکی پیداوار حاصل کرنے کے لئے لگائے گئے بجلی گھروں کی پیداواری صلاحیت ملک کی ضرورت سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں موسم سرما کے دوران زیادہ سے زیادہ 12 ہزار میگاواٹ بجلی درکار ہوتی ہے جبکہ موسم گرما کے دوران زیادہ سے زیادہ بجلی کی مانگ 25 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے لیکن تعجب خیز ہے کہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 38 ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے اور ابھی چند ایک منصوبے تکمیل کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کا ترسیلی نظام اِس قدر بجلی کی ترسیل کا بوجھ اُٹھانے کی سکت نہیں رکھتا اور دوسرا لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیاں سست روی کے دور سے گزر رہی ہیں۔ سال 2018ءمیں اقتصادی شرح نمو 5.8 فیصد سالانہ تھی جو کم ہوتے ہوتے منفی ہو چکی ہے!پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت لگائے جانے والے توانائی کے کئی پیداواری منصوبوں سے حاصل ہونے والی بجلی پہلے سے زیادہ مہنگی ہو گی۔ سی پیک کے تحت 10 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار حاصل ہو گی جبکہ اِن میں سے 65فیصد بجلی گھر کوئلے کی طاقت سے چلیں گے۔ پاکستان نے چین کے بجلی گھروں سے معاہدہ کیا ہے جس کے تحت سالانہ 400 ارب روپے کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں ادا کئے جائیں گے اور اِس میں اضافہ ہوتا رہے گا جو چند برس بعد 800 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔پاکستان کو سستے ذرائع کے استعمال سے بجلی کی پیداوار پر توجہ دینی چاہئے۔ فی الوقت 64فیصد بجلی تیل و گیس اور کوئلے‘ ستائیس فیصد بجلی پانی‘ پانچ فیصد جوہری اور 4 فیصد شمسی و ہوا کی طاقت سے حاصل کی جا رہی ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان نے 2 ایسے بجلی گھروں کی تعمیر کا ارادہ ترک کر دیا ہے جو کوئلے کی مدد سے بجلی پیدا کرتے تھے۔پاکستان کی ضرورت اصلاحات کی ہے۔ اگر اصلاحات نہیں کی جائیں گی تو ملک اقتصادی دباو¿ سے باہر نہیں نکل سکے گا۔ بجلی کی پیداوار پر لاگت اور اِس کی پیداواری صنعتوں کو دی جانے والی مراعات کم کرنے کے ساتھ صارفین کے لئے بجلی کی قیمت بڑھانے سے بوجھ کم کیا جاسکتا ہے۔ حکومت نے ماضی میں بجلی کی مد میں ایک کھرب روپے سے زائد کی سبسڈی دی ہے۔ پاکستان میں بجلی کا پیداواری شعبہ خزانے پر بوجھ بن چکا ہے۔ حکومت نے عالمی سطح پر تحفظ ماحول کے معاہدے اور وعدے کئے ہیں جن کے تحت ملک میں بجلی کی طاقت سے چلنے والی گاڑیاں متعارف کروائی جائیں گی لیکن اگر ایک طرف ماحول دوست گاڑیاں متعارف ہوں گی تو دوسری طرف 64فیصد بجلی تیل و گیس اور کوئلے سے پیدا کی جا رہی ہے اور یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔پاکستان میں توانائی کا پیداواری شعبہ ماحول دوست نہیں۔ یہ مہنگا ہے اور یہ دیوالیہ پن کا شکار ہے۔ ایسی صورت میں اقتصادی ترقی کس طرح عملاً ممکن بنائی جا سکتی ہے جبکہ اُس کی بنیاد ہی دیوالیہ پن پر استوار ہو۔ اِس لئے ضرورت ہے کہ مسئلے کے حل کے لئے مختلف انداز سے سوچا جائے۔ حکومت نجی بجلی گھروں سے بجلی خریدتی ہے اور حکومت اِن بجلی گھروں سے بجلی خریدنے والی واحد خریدار ہے۔ ایک ایسا کاروباری ماحول تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں مقابلے کی فضا پیدا ہو اور نجی بجلی گھر ایک دوسرے سے مقابلے میں کم قیمت پر بجلی فروخت کریں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان میں بجلی کا پیداواری شعبہ ملک کی اقتصادی صورتحال کو مزید بگاڑنے کا باعث بنے گا اور اِس کی وجہ سے پوری اکنامی بیٹھ جائے گی اور ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)