سیکورٹی چیلنجز۔۔۔۔

قبائلی اضلاع میں امن و امان بحال کرنے کے لئے کاروائیاں جاری ہیں جن میں کئی دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا ہے جو اپنی جگہ غیرمعمولی کامیابی ہے۔ کچھ عرصہ قبل وزیر ستان میںدہشت گردوںکے مضبوط ٹھکانے تھے۔ وہیں ان کے اسلحہ کے کارخانے‘ اسلحہ کے ذخائر اور دہشت گردی کی تربیت گاہیں بھی تھیں۔ وہ حکومت اور ریاست کےلئے چیلنج بنے ہوئے تھے۔ ریاستی رٹ اُن علاقوں میں مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ اپنے گمراہ کن نظریات پورے ملک پر مسلط کرنے کے لئے دھونس‘ دھمکیوں اور بدترین دہشت گردی سے کام لیا جاتا تھا۔ سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں اوردفاتر پر متواتر حملے کئے گئے۔ یہ کسی مذہبی و مسلکی گروپ کی نہیں بھارت کے ایجنٹوں کی کاروائیاں ہو سکتی ہیں۔ جن کو کسی سطح پر قابلِ ِقبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والوں کو فوجی و عسکری قیادت کی طرف ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کا حتمی فیصلہ کر کے عمل شروع کر دیا گیا۔ وزیرستان میں قائم کردہ دہشت گردوں کی ریاست اندر بنائی گئی ریاست کو ضربِ عضب نامی کاروائی کے تحت تہس نہس کر دیا گیا۔ ان کے اسلحہ ساز کارخانے‘ اسلحہ کے ذخائر تربیت گاہیں اور ٹھکانے اڑا کر رکھ دیئے گئے تاہم دہشت گردوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور کچھ ملک کے اندر مختلف حصوں میں روپوش ہوئے جبکہ اکثریت نے افغانستان میں جا کر پناہ لے لی اور وہیں سے پاکستان کے خلاف کاروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ اِس کام میں مدد دینے کےلئے بھارت پہلے ہی سے وہاں موجود تھا جو افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال کر رہا تھا۔ اب بھی کررہا ہے تاہم امید ہے کہ بارڈر مینجمنٹ کے تحت پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب سے دہشت گردوں کی آمدورفت کم ترین سطح پر آ جائے گی جس سے دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔پاکستان سے راہ¿ فرار اختیار کرنے والے دہشت گردوںکو بھارت کے ایما پر افغان حکومت پناہ دیتی رہی ہے۔ افغانستان میں بھارتی قونصل خانے دہشت گردی کی تربیت بھی دیتے ہیں۔ یہ قونصل خانے دہشت گردوں کے مراکز بن چکے ہیں۔ مولوی فضل اللہ جیسے دہشت گرد وہیں سے پاکستان کے خلاف سرگرم تھے۔ وہ تو وہاں ایک حملے میں ہلاک ہو گیا اس کے ساتھی بدستور پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی افغانستان کے راستے سے ہو یا پاکستان میں دبکے ہوئے دہشت گرد کاروائی کریں ان کی پشت پر بھارت ہی نظر آتا ہے۔گو کہ یہ دہشت گرد پہلے کی طرح بڑے حملے کرنے سے عاجز آ چکے ہیںمگر جو کبھی کبھار حملہ اور دہشت گردی کرتے ہیں وہ بھی کیوں ہوں۔ پاکستان میں کبھی روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے بدترین واقعات ہوتے تھے جو ایک توافغانستان کے ملحقہ علاقوں تک محدود ہو گئے ہیں دوسرے ایسے واقعات کے دوران ہفتوں اور مہینوں کا وقفہ ہوتا ہے۔اس پر اطمینان کا اظہار کیا جا سکتا ہے نہ قابل قبول قرار دیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردوں کے وجود سے ملک کو کلی طور پر پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں دہشت گردی کا ایک بھی واقعہ کیوں ہو۔ اس حوالے سے فورسز متحرک و فعال ہیں۔ کئی بار دہشت گردی کی واردات کے دوران مقابلے میں فورسز کے سپوت شہید ہوئے۔ پاک فوج کی کاروائیوں کا خاص پہلو یہ بھی ہے کہ اِنہوں نے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کئی کامیاب آپریشنز کئے ہیں اور درجنوں دہشت گرد کاروائیوں کو اُن کے رونما ہونے سے پہلے ہی ناکام بنایا ہے۔ شک و شبے سے بالاتر ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ہر قسم کی دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے‘ جس کے ناقابل تردید ثبوت اقوام متحدہ اورامریکہ سمیت پوری دنیا کے سامنے رکھے گئے ہیں۔ ان ثبوتوں سے قطع نظر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول علی الاعلان کہہ چکے ہیں کہ کشمیر میں پاکستان کے ایما پر آزادی کی تحریک کو مہمیز ملتی ہے۔ اس کا بدلہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں چکائیں گے۔ یہ پاکستان میں بھارت کے اعلیٰ ترین سطح پر دہشتگردی کرانے کا اعتراف ہے۔ بھارت پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کے جھوٹے الزامات لگا کر وہاں اپنی بربریت اور سفاکیت میںاضافہ کررہا ہے۔ لائق توجہ ہے کہ افغانستان میں امن عمل سبوتاژ کرنے کےلئے بھی بھارت اور افغان حکمرانوں کا گٹھ جوڑ بنا ہوا ہے۔ امریکہ کو یہ باور کرانے کےلئے کہ طالبان امن نہیں چاہتے حملوں کی ڈرامے بازی کی جاتی ہے۔ بھارت ایسے ڈراموں میں وسیع تجربہ رکھتا ہے۔ ممبئی حملوں سے بھی قبل سمجھوتہ ایکسپریس میں آتشزدگی اور پھر پٹھان کوٹ اُڑی اور پلوامہ حملے بھارت کی ڈرامہ بازیوں کی چند ایک مثالیں ہیں۔ پاکستان سے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کےلئے عسکری و سیاسی قیادت اور قوم کا مقصد ایک ہے۔ آج سب سے زیادہ ضرورت دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے کڑے احتساب کی ہے اور یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ سہولت کاری کے بغیر دہشت گرد ایک بھی کاروائی نہیں کر سکتے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر رافع قمر۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)