قانون ساز ایوان بالا (سینٹ) کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے جس کےلئے حزب اختلاف و اقتدار نے اپنے اپنے اُمیدوار نامزد کر دیئے ہیں تاہم دیکھنا یہ ہے کہ ایوان ِبالا میں عددی اکثریت رکھنے والی تحریک انصاف اپنے حیثیت کا دفاع کر پائے گی یا نہیں۔ اس وقت یہ سوال بھی زیرگردش ہے کہ نئے چیئرمین کے انتخاب کے حوالے سے جوڑ توڑ میں کامیابی کسے حاصل ہوگی۔ دوسری طرف ذرائع ابلاغ اور بالخصوص سوشل میڈیا پر جتنا بھی ہنگامہ برپا ہو‘ جماعتوں کو سینیٹ انتخابات میں سیاسی بیانیے‘ اخلاقیات اور اپنے ہی بنائے گئے زریں اصولوں سے بھی نظریں چرانی پڑ جاتی ہیں۔ سینیٹ چیئرمین کےلئے دو اتحادوں اور پارٹی پوزیشن پر نظر دوڑانے سے قبل یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ایوان بالا کے ان انتخابات میں ناممکن بھی ممکن ہونے کا امکان موجود رہتا ہے۔ اس کی بڑی مثال تو خود اس وقت چیئرمین سینیٹ کے امیدوار یوسف رضا گیلانی اور صادق سنجرانی ہی ہیں‘ جو اس قدر پیچیدہ انتخابی مقابلے میں اپ سیٹ دینے کے حوالے سے اب ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ اپوزیشن اراکین کی کم تعداد کے باوجود یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو شکست دے کر سینیٹر بننے میں کامیاب ہوئے اور اب وہ چیئرمین سینٹ کی دوڑ میں بھی بہتر پوزیشن میں نظر آتے ہیں۔ اس وقت اپوزیشن کو چیئرمین سینیٹ منتخب کروانے کے لئے بظاہر 51 ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے مگر یہ ووٹنگ خفیہ رائے شماری سے ہوگی اور اس میں نتائج کا گراف غیر متوقع طور پر بدل بھی جاتا ہے یعنی یوسف رضا گیلانی اکیاون سے زیادہ بھی ووٹ لے سکتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خفیہ رائے شماری کے دوران ان کی ظاہری اکثریت بھی سمٹ جائے۔ ابھی تک یوسف رضا گیلانی کا یہی مو¿قف میڈیا پر چلا ہے کہ ’بظاہر اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نظر آ رہی ہے‘ جس پر کچھ اہم اپوزیشن رہنما خود حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ صادق سنجرانی پہلی بار آزاد حیثیت سے بلوچستان سے سینیٹ تک پہنچے جس کے بعد وہ اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور حکومت دونوں کی حمایت حاصل کر کے تین سال کےلئے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تھے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود ان پر عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی‘ جو ناکام ہوئی۔ اپنی تین برس کی مدت پوری کرنے کے بعد وہ اب دوسری مدت کےلئے حکومتی اتحاد کی طرف سے سینیٹ چیئرمین کے امیدوار ہیں۔ اس بار فرق یہ ہے کہ ان کے مد مقابل پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار سیاستدان میدان میں موجود ہیں‘ جن کی وزارت عظمیٰ کے دوران حفیظ شیخ کی طرح صادق سنجرانی نے بھی ان کے ماتحت کام کیا۔ حکومت کا موقف ہے کہ سنجرانی کو اکثریت کی حمایت حاصل ہو چکی ہے لیکن ان دعوو¿ں کے باوجود بھی سینیٹ میں چھوٹی جماعتوں کو غیر معمولی حد تک فیصلہ کن اہمیت حاصل ہے۔سینیٹ کے 100رکنی ایوان میں چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے لئے 51ووٹ درکار ہیں بظاہر نمبرز گیم میں اس وقت حکومتی اتحاد اپوزیشن سے پیچھے ہے مگر اپوزیشن اتحاد کےلئے جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اپوزیشن کے پاس اس وقت سینیٹ میں باون ووٹ ہیں جن میں سے بیس سینیٹرز کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی جبکہ اٹھارہ کا تعلق نواز لیگ کے اراکین سے ہے۔ اس کے علاوہ پانچ سینیٹرز کا تعلق جے یو آئی (ف) سے ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے پاس دو، دو جبکہ جماعت اسلامی‘پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے پاس ایک، ایک ووٹ موجود ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر شمیم آفریدی آزاد حیثیت سے فاٹا سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ فاٹا کی خصوصی حیثیت ختم ہونے اور اس علاقے کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قریب ہو گئے۔ اس بار فاٹا سے کوئی منتخب نہیں ہوا مگر اس علاقے کی خصوصی حیثیت ختم ہونے سے پہلے شمیم آفریدی سمیت چار سینیٹرز قبائلی علاقوں سے سینیٹ میں پہنچے تھے‘ جو مزید تین سال بھی ایوان بالا کا حصہ رہیں گے۔ بلوچستان سے بی این پی میں شامل ہونے والی نسیمہ احسان کے سینیٹ تک کے سفر میں انہیں بلوچستان عوامی پارٹی کی بھی حمایت حاصل رہی۔ ان کے خاوند احسان شاہ اس وقت پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی بھی ہیں اور ان کے لئے اپوزیشن کے امیدوار کو ووٹ دینا ایک مشکل فیصلہ ہو سکتا ہے۔ نواز لیگ کے سینیٹر اسحاق ڈار لندن میں مقیم ہیں۔ اگر ان کا ووٹ نہ گنا جائے تو اپوزیشن کے پاس کل نشستیں 51 رہ جاتی ہیں۔ ابھی جماعت اسلامی نے اعلان نہیں کیا کہ وہ سینیٹ میں حکومت کا ساتھ دے گی یا اپوزیشن میں رہتے ہوئے اپوزیشن اتحاد کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دے گی۔ اگر جماعت اسلامی ووٹنگ کے عمل سے اجتناب کرے تو اپوزیشن کی تعداد پچاس بنتی ہے اور یوں یوسف رضا گیلانی اس وقت تک چیئرمین سینیٹ نہیں بن سکتے جب تک جماعت اسلامی یا حکومتی اتحاد میں سے کوئی انہیں ووٹ نہیں ڈالتا۔ ذہن نشین رہے کہ جماعت اسلامی نے سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں وفاق اور سندھ سے حصہ نہیں لیا۔ اس سے قبل بھی جب اپوزیشن اتحاد نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی تو جماعت اسلامی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔قواعد‘ ضابطہ کار اور انصرام کاروائی سینٹ کے مطابق چیئرمین کےلئے دونوں امیدواروں کے درمیان مقابلے کی صورت میں ایک امیدوار کو ایوان کے اراکین کی مجموعی تعداد کی اکثریت یعنی کم از کم اکیاون فیصد ووٹ حاصل کرنا ہوں گے۔ اگر کوئی امیدوار بھی مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کر سکے گا تو اس صورت میں بغیر کسی وقفے کے ان کے درمیان اس وقت تک از سر نو خفیہ رائے شماری کرائی جاتی رہے گی جب تک ان دو میں سے ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر لیتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نمبر گیم کی پریشان کن صورتحال کو دیکھ کر دونوں امیداوار ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ ان کو زیادہ سے زیادہ اراکین کی حمایت حاصل ہو جائے۔ حکومت کے امیدوار کی کامیابی کےلئے سر توڑ کوششیں اپنی جگہ مگر اب ایک نظر جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کے مو¿قف پر کہ وہ اس بار کس کی حمایت یا مخالفت کریں گے اور کن شرائط پر وہ ایسا کریں گے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر حمید غازی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)