پاکستان کی منتخب سیاسی قیادت کو اپنے متعلق عام آدمی کی رائے بارے فکرمند ہونا چاہئے جن کے لئے حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک ہی صف میں کھڑے ہیں کیونکہ اِنہیں عام آدمی کی مشکلات سے نہیں بلکہ اپنے سیاسی اہداف سے غرض ہے۔ سیاست کے نیشنل سٹیڈیم میں مقابلہ جاری ہے۔ سیاست کو عموماً کرکٹ سے تشبیہہ دی جاتی ہے خاص طور پر اب جبکہ ملک کی سیاسی ٹیم کی کپتانی ایک پروفیشنل کرکٹر کر رہا ہے لیکن یہ تشبیہہ درست نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچ پر بہت زیادہ کھلاڑی ہیں‘ مناسب رویہ سے متعلق ایم سی سی کے قوانین کی کسی کو فکر نہیں ہے اور یہاں رن آؤٹ بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ یہاں سب کو سکور بنانے کے بجائے سکور برابر کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ تو کیا یہ سیاست کا کھیل فٹ بال کی طرح ہے؟ ایسا بھی نہیں ہے۔ فٹبال میں مہارت‘ رفتار اور بال پر مکمل کنٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے سیاسی ٹاکرے تو جان بوجھ کر فاؤل کرنے اور خود اپنا ہی گول کرنے پر مشتمل ہوتے ہیں اور پھر ان کی نگرانی ایک ایسا جانب دار ریفری کر رہا ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں سیٹی کی طرح کی چھڑی ہوتی ہے۔ پھر سیاسی کھیل کو باکسنگ سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے؟ اگر اسے ایک ایسے کھیل کے طور پر دیکھیں جس میں خون بہتا ہو اور عموماً نتیجہ ناک آؤٹ کی صورت میں نکلتا ہو تو بالکل اسے باکسنگ سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ ہمارے سیاسی کھلاڑی کوئینسبری قوانین سے واقف نہیں ہیں۔ جن افراد کو تاریخ سے دلچسپی ہے وہ اس کھیل کو روم کے کلوسیم میں ہونے والے مقابلوں سے تشبیہہ دیں گے۔ ان مقابلوں میں گلیڈی ایٹرز اس وقت تک لڑتے تھے جب تک انگوٹھے کی ایک حرکت ان کی قسمت کا فیصلہ نہیں کر دیتی تھی۔ اوپر کی جانب اٹھے ہوئے انگوٹھے کا مطلب تھا کہ وہ گلیڈی ایٹر ایک اور لڑائی کے لئے زندہ رہے گا اور انگوٹھے کا نیچے کی جانب رخ ہونے کا مطلب موت ہوتا تھا۔قومی اسمبلی میں ہونے والا اعتماد کا ووٹ بھی اوپر کی جانب اٹھا ہوا انگوٹھا ہی تھا اور وہ بھی کم از کم چھ مہینے کے لئے یہ کامیابی بہت نقصانات کے بعد ملی ہے۔ کئی مبصرین اس بارے میں حیران ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کو سینٹ انتخابات سے ذرا پہلے آرٹیکل دوسوچھبیس میں ترمیم کیوں ضروری لگی اور وہ بھی اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیر؟ ‘ ابراہم لنکن کے سیکرٹری برائے جنگ سائمن کیمرون نے کہا تھا کہ ’ایک سچا سیاستدان وہ ہے کہ جب اسے خریدا جائے تو وہ اپنے خریدار کے ساتھ وفادار رہے۔‘ اب عام ووٹر پریشان ہے کہ اگر اوپن بیلٹ اتنی ہی اچھی چیز ہے تو پھر اس کا اطلاق عام انتخابات پر بھی کیوں نہیں ہوتا۔ اس کا جواب ووٹ کی حرمت میں پوشیدہ ہے لیکن ہمارے عوامی نمائندے اس کا احساس نہیں رکھتے۔ ووٹ ایک امانت ہے۔ یہ ایک حق ہے جو ایک انسان سے دوسرے کو ملتا ہے۔ یہ فٹبال نہیں ہے کہ آپ اسے کسی میدان میں اِدھر سے اُدھر پھینکتے رہیں۔ اس کی حیثیت کاغذ کے ایک ٹکڑے سے کہیں زیادہ ہے۔1938ء میں برطانوی وزیرِاعظم نوائل چیمبر لین جرمن چانسلر اڈولف ہٹلر کے ساتھ مذاکرات کرکے واپس لوٹے تو انہوں نے اعلان کیا کہ ’میرے ہاتھ میں جو کاغذ کا ٹکڑا ہے اس پر اڈولف ہٹلر کے دستخط موجود ہیں‘ جس کے مطابق وہ جنگ کا آغاز نہیں کریں گے۔ ہٹلر نے رازداری سے اپنے وزیرِ خارجہ سے کہا کہ اس کو زیادہ سنجیدہ مت لو اس کاغذ کے ٹکڑے کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘ برطانیہ کی جانب سے تین ستمبر 1939ء کو جرمنی بھیجے جانے والا اعلانِ جنگ بھی ایک کاغذ کے ٹکڑے پر ہی تحریر تھا اور 8مئی 1945ء کو جرمنی کی جانب سے دستخط کیا جانے والا ہتھیار ڈالنے کا اعلان بھی کاغذ کے ٹکڑے پر ہی مشتمل تھا‘ یوں ہٹلر کی بات غلط ثابت ہوئی۔ اگر بیلٹ باکس کو ردی کی ٹوکری سمجھا جائے تو پھر بیلٹ پیپر کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے بھی کم ہوجاتی ہے تاہم باشعور ووٹر کے ہاتھ میں موجود بیلٹ پیپر حکومتوں کو گرانے کی طاقت رکھتا ہے۔ پاکستانی ووٹر کھلاڑیوں کو ٹیم بدلتے دیکھ کر‘ امیدواروں کو ہارتا دیکھ کر اور وزرائے اعظم کو گھر جاتا دیکھ کر تنگ آچکے ہیں۔ کوئی سیاست دانوں سے سوال کرے کہ ’اگر آپ سب پاکستان کے ساتھ کھیل کھیل کر تھک چکے ہوں تو برائے مہربانی ہمیں ہمارا ملک واپس دے دیجئے۔ عین نوازش ہو گی؟‘ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ایف ایس اعجازالدین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)