امریکہ میں ”کواڈریلیٹرل سکیورٹی ڈائیلاگ (کواڈ)“ ممالک کے درمیان پہلی ورچوئل کانفرنس ہے جس کا آغاز بارہ مارچ سے ہوا ہے اور جس کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان ورچوئل ملاقات بھی ہو گی۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد نئے امریکی صدر کی انڈین وزیر اعظم کے ساتھ یہ پہلی ملاقات ہوگی۔ کواڈ نامی چار ملکی دفاعی بات چیت کی میزبانی امریکہ کر رہا ہے جس کے علاوہ اِس میں آسٹریلیا‘ جاپان اور بھارت شامل ہیں۔ ابتدا میں اِس مذاکراتی عمل اور پیشرفت کا تعلق چین کے خلاف مذکورہ چاروں ممالک کے درمیان بحری صلاحیت اور دفاعی تعاون بڑھانا ہے لیکن اب اس کے ایجنڈے میں مزید وسعت اب آگئی ہے۔ اس ورچوئل کانفرنس میں وزیر اعظم نریندر مودی‘ آسٹریلوی وزیر اعظم سکاٹ موریسن‘ جاپان کے وزیر اعظم یوشی ہائیڈ سوگا اور امریکہ کے صدر جو بائیڈن شامل ہوں گے۔کواڈ سکیورٹی ڈائیلاگ کے رکن ممالک چین کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ روکنے کےلئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے ہیں تاہم بھارت ایک ایسے پلیٹ فارم میں بھی کافی سرگرم ہے جس میں بھارت اور چین کا شامل ہیں اور اُسے برکس (BRICS) فورم کہا جاتا ہے‘ جو بھارت اور چین کے علاوہ روس‘ برازیل اور جنوبی افریقہ پر مشتمل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں برس بھارت کو ’برکس‘ کی صدارت ملی ہے اور بھارت سال کے وسط میں یا اس کے فوراً بعد برکس سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والا ہے‘ جس میں چینی صدر شی جن پنگ کی شرکت کا قوی امکان ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اس سال کی ایک بڑی پیشرفت ہو گی کیونکہ گذشتہ برس بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تصادم کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سخت کشیدگی کا شکار ہو گئے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف بھارت چین مخالف کاوشوں کا حصہ بن رہا ہے تو دوسرے فورم پر وہ چین کے ہمراہ کھڑا نظر آتا ہے‘ تو ایسی صورتحال میں نئی دہلی نے بیجنگ کے ساتھ تعلقات میں توازن کیسے برقرار رکھا ہوا ہے؟ تجزیہ کار مانتے ہیں کہ بھارت کے پاس توازن برقرار رکھنے کے دو طریقے ہیں۔ برکس پندرہ برس پرانی تنظیم ہے اور اس میں دونوں ممالک کے درمیان بہت تعاون کیا گیا ہے لیکن یہ ادارہ ایسے وقت میں قائم کیا گیا تھا جب چین اور بھارت کے درمیان تعلقات اچھے تھے لیکن گزشتہ تین برس میں اور خاص طور پر سال دوہزاربیس سے چین اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی جاری ہے اور بھارت امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ چین کے تعلقات خراب ہوئے ہیں لہٰذا نئی دفاعی ضرورت کے تحت کواڈ کو سامنے لایا گیا ہے۔ کواڈ کو پہلے قائم کیا گیا تھا لیکن یہ چل نہیں سکا۔ اس کی دوسری شکل 2017ءمیں سامنے آئی تھی۔ بھارت کواڈ میں اس لئے شامل ہوا کیونکہ وہ چین کے ساتھ توازن برقرار رکھنا چاہتا تھا اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب انڈوپسیفک کی چار سپر پاورز (انڈیا‘ امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا) ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور چین کو بتائیں کہ خطے میں جو بھی کام کرنا ہے وہ قانون کے تحت کرنا پڑے گا اور اگر آپ تعاون نہیں کرتے ہیں تو ہم وہ کریں گے جو ہمیں کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ برکس میں بہت کام ہوا ہے اور یہ ایک متحرک ادارہ ہے یہ کواڈ سے زیادہ ترقی یافتہ ادارہ ہے۔ اب انڈیا برکس کانفرنس کی میزبانی کرنے جارہا ہے لہٰذا برکس کو بھی آگے بڑھانے مفاد میں ہے۔کواڈ کی بنیاد سال 2007ءمیں رکھی گئی تھی لیکن اس نے اب تک کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی۔ سال 2017ءمیں اس کی تنظیم نو کی گئی اور اس سال اس کی پہلی سربراہ کانفرنس ہوگی۔ بھارت چین کا ہمسایہ ملک ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ساڑھے چار ہزار کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے۔ چین کے بارے میں بھارت کی پالیسی میں ان چیزوں کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ بھارت برکس اور کواڈ دونوں میں شامل ہے۔ انڈیا کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جےشنکر نے حال ہی میں ’دی انڈین وے: سٹریٹجی فار این انسرٹن ورلڈ‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے چین کے بارے میں ایک مکمل باب تحریر کیا‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ چین کو سنبھالا جائے۔ تعلقات کا سنبھالنا اور ان کا گہرا ہونا دو مختلف چیزیں ہیں۔ ان کی کتاب بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تصادم سے پہلے شائع ہوئی تھی۔ اس تصادم سے قبل دونوں ممالک کے درمیان دوستی مضبوط دکھائی دے رہی تھی لیکن اس کے باوجود وزیر خارجہ نے چین سے تعلقات کو سنبھالنے کی بات کی۔ وزیر خارجہ کی کتاب خود ان کی خارجہ پالیسیوں کی جھلک پیش کرتی ہے۔ وہ اقوام متحدہ جیسے بہت سے ممالک والے اداروں کی نسبت کم ممالک پر مبنی چھوٹے گروپوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اپنی شناخت اور فعالیت کو بڑھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دیگر عالمی تنظیموں میں بھی شامل رہے تاہم اِس حکمت عملی کا نقصان یہ ہے کہ وہ کسی ایک خارجہ پالیسی کا پابند نہیں رہ سکے گا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ایس جی خواجہ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)