نظام کی ناکامی؟۔۔۔

پاکستان کی گزشتہ 48 سالہ تاریخ میں 11 مرتبہ عام انتخابات (جنرل الیکشنز) کا انعقاد ہوا ہے لیکن کسی ایک بھی انتخاب کے نتائج سے سیاسی جماعتیں مطمئن نہیں رہیں تو کیا یہ انتخابی نظام کی ناکامی ہے؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں چار زمینی حقائق پر نظر کرنا ہوگی۔ 342منتخب اراکین پر مشتمل قومی اسمبلی ہر انتخاب کے بعد بنائی جاتی ہے لیکن یہ زمینی حقائق اور عوام کی توقعات پر پورا نہیں اُترتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ قانون ساز ایوان بالا (سینٹ) کی 100 نشستوں کے لئے بھی انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں اور اِن میں اراکین کی وفاداریاں خریدنے اور فروخت کرنے کے واقعات دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ سامنے آتے رہتے ہیں‘ حکمرانوں کو الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر اعتراضات و تحفظات ہیں۔ اِس نظام کو اِس لئے تخلیق کیا گیا تھا کہ یہ پاکستان کی 22 کروڑ کل آبادی کے مسائل و مشکلات کا حل تلاش کرے۔ کیا ایسا ہو سکا ہے؟ اِس نظام کو اِس لئے بنایا گیا تھا تاکہ بائیس کروڑ عوام کا رہن سہن بلند ہو سکے کیا ایسا ہوا ہے؟ نتیجہ سب کے سامنے میں ہے کہ پاکستان میں ہر دن غربت بڑھ رہی ہے۔ آزادی حاصل کئے 73 برس ہو چکے ہیں اور اِس تمام سفر کے بعد 40 فیصد پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جنہیں تین وقت میں ایک وقت کا کھانا بمشکل میسر آتا ہے۔ 9 کروڑ ایسے پاکستانی ہیں جو خط غربت سے سے تھوڑا بلند اور جیسی تیسی زندگی بسر کر رہے ہیں۔حال ہی میں ہونے والے NA-75 ڈسکہ کے انتخابات پر نظر ڈالیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابات صرف سرمایہ داروںکا کھیل ہے اور اِس میں عام آدمی صرف ووٹر کی حیثیت سے حصہ لے سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابات نسلی لسانی اور گروہی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے لڑے جاتے ہیں۔ تیسرا انتخابات میں حکومتی وسائل کا استعمال ہوتا ہے۔ چوتھا انتخابات کا مقصد ریاست کے زیادہ سے زیادہ وسائل پر دسترس حاصل کرنا ہوتا ہے۔ پانچواں عام انتخابات سے عام آدمی کا کچھ بھی لینا دینا نہیں رہا اور چھٹی بات یہ ہے کہ عوام متحد نہیں جبکہ اُن پر حکمرانی کرنے والے متحد ہیں۔آخر یہ بات کیوں کہی جاتی ہے کہ پاکستان میں انتخابات سے عام آدمی کا کچھ بھی لینا دینا نہیں؟ 1990ءمیں ہر پاکستانی اوسط آمدنی 371 ڈالر سالانہ تھی جو چین کی فی کس آمدنی 317 ڈالر سے زیادہ تھی۔ 29 سال کے بعد پاکستانیوںکی اوسط آمدنی 371ڈالر سے بڑھ کر 1284 ڈالر ہو چکی ہے لیکن چین میں فی کس آمدنی 317 ڈالر سے بڑھ کر 10 ہزار 216 ڈالر ہے۔ 1990ءمیں چین کی فی کس آمدنی پاکستان سے کم تھی اور آج پاکستان سے 8 گنا زیادہ ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان میں جو سیاسی و انتظامی نظام رائج ہے اُس سے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ مسائل کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان کا نظام تین طرح کی چیزیں پیدا کرتا ہے۔ ایک سیاسی نظام‘ ایک ادارہ جاتی ڈھانچہ اور ایک سیاسی استحکام۔ پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی جائے۔ ہمارے محکمے سرمایہ داروں کی اثاثوں میںاضافہ کر رہے ہیں۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک ایسا سیاسی نظام رائج ہے جس میں ایک دوسرے سے انتقام اورایک دوسرے کو نیچا دکھانے یعنی نفرت جیسی ترجیحات پائی جاتی ہیں۔نظام اگر مضبوط بنایا جائے تو اِس سے طرزحکمرانی کے مفید نتائج سامنے آتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں نظام کا اصول یہ ہے کہ اِس کا کوئی اصول نہیں۔ ہر وہ جماعت جو اقتدار میں ہوتی ہے وہ خود کو آئین اور قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔ ہر وہ جماعت جو حزب اختلاف میں ہوتی ہے وہ بھی خود کو آئین سے بالاتر سمجھتی ہے۔ اِس نظام کو درست کرنا ممکن ہے لیکن فیصلہ ساز چاہے اُن کا تعلق حزب اقتدار سے ہو یا حزب اختلاف سے اپنے اپنے مفادات کی قربانیاں دینے کا عزم رکھیں۔ پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام ملک کو انتشار کی طرف لے جا رہا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ منتخب نمائندوں سے انتظامیہ کے اختیارات واپس لے لئے جائیں اور ہر شعبے کو اُس سے متعلقہ ماہرین کے حوالے کیا جائے۔ سیاست ہر اُس جگہ انتشار کا باعث بنے گی جہاں اِس کے اصول نہیں ہوں گے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)