فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پاکستان نے جو مالیاتی نظم و ضبط لاگو کیا ہے اُس سے غیرقانونی ذرائع کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور اب بیرون ملک سے ترسیلات زر جائز طریقوں کے ذریعے ہو رہی ہیں۔ اِس سلسلے میں قابل ذکر ہے کہ بینکوں کی جانب سے دی گئی سہولیات کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کےلئے رقم بھجوانا آسان بھی کر دیا گیا ہے تاہم حوالے اور ہنڈی کے ذریعے پاکستان رقم بھجوانے کا کام مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوا جو حکومتی اداروں کےلئے ایک چیلنج ہے۔ماضی میں جو پاکستانی حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجتے تھے‘ وہ آہستہ آہستہ بینکنگ چینل کی طرف راغب ہو رہے ہیں اور اِس نظام کی کامیابی کےلئے حکومتی اداروں کو حوالہ ہنڈی کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ اگرچہ تناسب انتہائی کم ہے کہ ننانوے فیصد پاکستانی قانونی ذرائع سے جبکہ صرف ایک فیصد حوالہ ہنڈی سے رقوم پاکستان بھیج رہے ہیں لیکن یہ ایک فیصد بھی پاکستان کےلئے ’ایف اے ٹی ایف‘ کی شرائط پر پورا نہ اُترنے کےلئے پریشان کن امر ہے۔ پاکستان میں کرنسی ایکسچینج کے کاروبار اور معاشی امور پر نظر رکھنے والے افراد کے مطابق بیرون ملک سے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے میں کمی اور بینکنگ چینل کے ذریعے آنے والی رقم میں اضافے کی وجہ سے ترسیلات زر مسلسل بڑھ رہی ہیں جو حکومتی قوانین میں سختی کے باعث ممکن ہوئی ہے اور یہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط کو پورا کرنے کےلئے متعارف کی گئی تاکہ پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکل سکے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے پاکستان میں رقوم بھیجنے میں اس سال کے شروع سے ہی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ترسیلات زر میں اضافہ موجودہ مالی سال کے آغاز سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا اور گزشتہ مالی سال کے آخری مہینے میں بھی دو ارب ڈالر سے زائد کے ترسیلات زر پاکستان میں آئے تھے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ترسیلاتِ زر مسلسل نویں مہینے میں فروری دو ہزار اکیس میں دو ارب ڈالر سے زائد رہیں۔ فروری دوہزاراکیس میں کارکنوں کی ترسیلات 2.266 ارب ڈالر رہیں‘ جو کہ لگ بھگ گذشتہ مہینے کی ترسیلات کے برابر ہے جبکہ فروری دوہزاربیس کے مقابلے میں یہ چوبیس اعشاریہ دو فیصد زائد ہے۔ جولائی تا فروری مالی سال دوہزار اکیس کے دوران کارکنوں کی ترسیلات اٹھارہ اعشاریہ سات ارب ڈالر تک جا پہنچیں جو گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں چوبیس اعشاریہ ایک فیصد زائد ہے۔ جولائی تا فروری مالی سال دوہزار اکیس کے دوران کارکنوں کی ترسیلاتِ زر کا بڑا حصہ سعودی عرب (پانچ ارب ڈالر)‘ متحدہ عرب امارات (چار ارب ڈالر)، برطانیہ (ڈھائی ارب ڈالر) اور امریکہ سے (ڈیڑھ ارب ڈالر) موصول ہوئے۔سٹیٹ بینک نے ترسیلات زر میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں متواتر اضافے میں جن چیزوں نے مدد دی ان میں باضابطہ ذرائع سے رقوم کی آمد کی حوصلہ افزائی کی خاطر حکومت اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے کئے گئے پالیسی اقدامات‘ کورونا کی وبا کے باعث سرحد پار سفر کا محدود ہونا‘ وبا کے دوران طبّی اخراجات اور بہبودی رقوم کی پاکستان منتقلی اور بازارِ مبادلہ میں استحکام کی صورتِ حال شامل ہیں۔غیر قانونی چینل کے خلاف اقدامات کی وجہ سے قانونی چینل سے ترسیلات زر کے آنے کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اِس کے ساتھ دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے سیاحت بند رہی تو بیرون ملک پاکستانی جو پیسے سیر و تفریح پر خرچ کرتے تھے وہ بھی انہوں نے پاکستان بھیجے۔ شروع شروع میں یہ تاثر تو ٹھیک تھا کہ بیرون ملک پاکستانیوں نے اپنی بچتیں اور نوکریوں سے فارغ ہونے کے بعد اپنی جمع پونچی پاکستان بھیجی جس نے ترسیلات زر میں اضافہ کیا اور ایسا ہوا بھی تھا تاہم تسلسل سے اضافہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کے علاوہ دوسرے اقدامات نے ترسیلات زر میں اضافے کو سہارا دیا۔ قابل ذکرہے کہ حکومتی اور سٹیٹ بینک کے اقدامات نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ سے ترسیلات زر بینکنگ چینل کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی شرائط پورا کر کے پاکستان گرے لسٹ سے نکل سکتا ہے۔ ان شرائط کو پورا کرنے کےلئے حکومت نے ایسے اقدامات کئے تاکہ اس کے ذریعے غیر قانونی ذرائع سے پاکستان سے باہر اور ملک میں آنے والی رقم پر نظر رکھی جا سکے ان اقدامات کے تحت غیرقانونی ذرائع یعنی حوالہ اور ہنڈی اور سے آنے والی رقم کی حوصلہ شکنی ہوئی کیونکہ حکومتی اداروں کی نگرانی میں اب یہ ممکن نہیں رہا۔ ان شرائط کے تحت اینٹی منی لانڈرنگ اور ’نو یور کسٹمر‘ کے تحت رقم کہاں سے اور کس طرح آ رہی ہے اس کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اب تک جتنی شرائط پوری کی گئی ہیں اس میں منی لانڈرنگ روکنا شامل رہا ہے جس نے ترسیلات زر کو قانونی چینل پر منتقل کرنے میں مدد فراہم کی۔ حوالہ اور ہنڈی آج سے چالیس پچاس برس پہلے غیر قانونی ذریعہ نہیں سمجھا جاتا تھا تاہم گزشتہ بیس پچیس برس میں اس پر نگرانی شروع کی گئی اور اسے غیر قانونی ذریعہ قرار دیا گیا۔ ایف اے ٹی ایف کی شرائط میں یہی تجویز کیا گیا کہ رقوم کے ذرائع کی نشاندہی کی جائے اور اس پر پاکستان نے عمل کیا تاکہ گرے لسٹ سے نکلا جا سکے۔ ماضی میں عوام کو آگاہی نہیں تھی کہ حوالہ اور ہنڈی سے رقم بھیجنا بھی جرم ہے جب آگاہی بڑھی اور پھر ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی وجہ سے سختیاں بڑھیں تو اب لوگوں نے قانونی ذرائع یعنی بینکنگ چینل کے ذریعے بیرون ملک سے پاکستان رقم بجھوانا شروع کر دی ہے۔ اب تک پاکستان اٹھارہ ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلات زر وصول کر چکا ہے اور اگر یہی رجحان برقرار رہتا ہے تو انہیں امید ہے کہ ترسیلات زر پورے سال اٹھائیس ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر راہب چوہان۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)