خارجہ پالیسی: نظرثانی کا وقت۔۔۔۔

امریکہ پاکستان سے اپنے تعلقات کو یک طرفہ مفادات کےلئے استعمال کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ ماضی قریب ہی کی بات کی جائے تو پاک امریکہ تعلقات کی بنیاد یا محور کبھی چین بھارت رہا تو کبھی افغان جنگ اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں تو پاکستان صف اول کا کردار ادا کرنے کے باوجود بھی تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاک امریکہ ممالک تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے کوئی خاص اشارہ نہیں دیا کہ آگے کیا ہوگا۔ سرکاری بیانات اور تھنک ٹینکس کی رپورٹس کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ایسے تعلقات کی امید رکھتا ہے جن میں امریکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان توازن قائم رکھے اور پاک چین تعلقات میں مداخلت نہ کرے تاہم پاکستان کے طرزِ عمل سے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا کہ پاکستان ان متصادم مقاصد کو حاصل کرنے اور امریکی پالیسی میں مطلوبہ تبدیلی لانے کےلئے کیا اقدامات کرے گا۔ ہمیں صرف یہ بات بتائی جارہی ہے کہ پاکستان عالمی سیاست سے آگے بڑھ کر عالمی تجارت کی جانب جارہا ہے۔ درحقیقت صرف تجارت سے کچھ نہیں ہوگا‘ خاص طور پر تب‘ جب ایک اقتصادی شراکت دار کے طور پر پاکستان کی حیثیت واضح ہے۔ یہاں تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے قریبی تعلقات کی بنیاد تاریخی اعتبار سے سیاسی ہی رہی ہے (1954ءسے 1965ءتک اور پھر 1979ءسے 1990ءتک) یا پھر ان تعلقات کی وجہ امریکہ اور عالمی امن کو لاحق خطرات رہے (2001ءسے 2011ءتک) اور یہیں پاک امریکہ تعلقات نے منطقی صورت اختیار کی۔ ان دونوں ممالک کے تعلقات کی بنیاد آج بھی سیاسی ہی ہے تاہم اب یہ تعلقات تنازعات کا باعث بن رہے ہیں لیکن افغانستان کے استحکام اور انسدادِ دہشت گردی جیسے شعبوں میں اب بھی تعاون ممکن ہے۔امریکہ کا خیال ہے کہ اگر افغانستان میں شورش جاری رہی تو اس سے دہشت گردی پروان چڑھے گی۔ یہ دہشت گردی نہ صرف افغانستان کی سلامتی کےلئے خطرہ ہوگی بلکہ اس سے پاکستان میں بھی دہشت گردی کو ہوا ملے گی اور یوں ایک ایٹمی ملک عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ ۔ امریکہ ان مسائل کو کس طرح حل کرے گا اس کا دار و مدار امریکہ کی چین اور افغان پالیسوں پر تو ہوگا ہی کہ جن پر اس وقت نظرثانی جاری ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ امریکہ کی جانب سے یہ بھی دیکھا جائے گا کہ پاکستان کی پالیسیاں امریکی مفادات سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہیں۔ امریکہ افغانستان میں ایک نئی جنگ کا آغاز نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ فروری 2020ءکے معاہدے کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ شاید یہ جنگ تو ہار چکا ہو لیکن وہ اب بھی افغانستان کو عدم استحکام سے بچانے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے لیکن امریکی پالیسیوں میں تواتر کے ساتھ اعتماد کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ماضی میں امریکہ پاکستان کو لاحق اقتصادی اور دفاعی چلنجز سے نمٹنے میں مدد کرتا رہا ہے۔ لیکن 1980ءکی دہائی اور نائن الیون کے بعد معاملات پیچیدہ ہونا شروع ہوئے اگر پاکستان اب سیاست سے تجارت کی جانب بڑھنا چاہتا ہے تو اسے امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک اور دفاعی معاملات پر کسی نتیجے پر پہنچنا ہوگا ورنہ یہ مسائل بار بار اقتصادی شراکت کی راہ میں حائل ہوتے رہیں گے۔ اقتصادی شراکت دار کے طور پر پاکستان کی اہمیت اس وقت تک واضح نہیں ہوگی جب تک افغانستان میں استحکام نہیں آجاتا اور پاکستان‘ وسط ایشیا کے لئے پائپ لائنوں اور تجارت کا مرکز نہیں بن جاتا۔ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہت زیادہ تبدیلی کی کوشش نہیں کرنی چاہئے پاکستان کو چاہئے کہ افغانستان کے معاملے اور انسدادِ دہشت گردی کے معاملات کے ساتھ آغاز کرے اور اعتماد سازی کی کوشش کرے اسکے بعد بات چیت کو بڑھاتے ہوئے متفقہ معاملات پر تعاون کرے اور اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کرے پاکستان کو اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ اپنی اہمیت کا احساس دلانا ہوگا جسے دنیا جانتی ہے لیکن چونکہ پاکستان خود اِس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اُٹھا رہا اِس لئے عالمی طاقتوں سے اُمید رکھنا کہ وہ پاکستان کا مفاد سوچیں‘ خود فریبی کا تسلسل ہوگا اور اِس حصار کو توڑنا وقت کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: توقیر حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)