تحریک انصاف خوش قسمت ہے کہ اِس کے خلاف سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کے بعد ایک ایسی حالت میں منتشر ہوئی ہیں کہ اب احتجاجی تحریک رمضان المبارک اور عیدالفطر کے بعد تک سرد خانے میں چلی گئی ہے اور حکومت کے لئے پریشانی کا باعث بننے والی صورتحال بظاہر ٹل گئی ہے‘جس کی بنیادی وجہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ میں دوریاں ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ میں قربتیں بڑھنے اور دوریاں پیدا ہونے کا یہ سلسلہ نیا نہیں‘ ماضی کی بات کی جائے تو ملک کے سیاسی افق پر ان دونوں نے گہرے سیاسی نقوش چھوڑے ہیں۔ پیپلز پارٹی جس کی بنیاد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی‘ ایک عوامی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی‘نوے کی دہائی میں دونوں حریف جماعتوں کا ایک دوسرے کی حکومت کے خلاف سیاسی تحریک چلانے اور الزامات لگانا آج بھی سب کو یاد ہے لیکن نوے کی دہائی میں دو مخالف انتہاؤں پر کھڑے نواز شریف اور بینظیر بھٹو سویلین حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے ایک دوسرے کے قریب بھی آئے۔ پہلی مرتبہ چھ اگست 1990ء کو اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل اٹھاون ٹو بی کے تحت بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی جبکہ اٹھارہ اگست 1993ء کو ایک بار پھر صدر غلام اسحاق خان نے آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے نواز شریف حکومت کو برطرف کیا لیکن اس بار سپریم کورٹ نے نہ صرف فیصلہ غیرآئینی قرار دیا بلکہ حکومت بحال کر دی۔ پانچ نومبر 1996ء کو اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو اسی آئینی شق کے تحت برطرف کر دیا۔ جس کے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے آئین میں ترمیم کے لئے پہلی مرتبہ سیاسی تعاون کیا اور نواز شریف کے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد دو تہائی اکثریت سے اپریل 1997ء میں تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدر کے صوابدیدی اختیار اٹھاون ٹو بی کو ختم کر دیا۔ 1977ء کے بعد کی ملکی سیاست کا دور جو جنرل ضیاالحق کے اقتدار سے شروع ہوا اور 1988ء میں ان کی موت ہونے کے ساتھ ختم ہوا‘ اس وقت پیپلز پارٹی کے مقابلے میں جو ایک سیاسی طاقت ابھری اس کی سربراہی آج کی نواز لیگ کے قائد نواز شریف کر رہے تھے۔ ماضی میں دونوں جماعتوں کی ایک دوسرے کی مخالفت کی تاریخ ہے اور اس مخالفت کے نتیجہ میں دونوں نے ایک دوسرے کی حکومت کو دو دو مرتبہ گرایا اور یہ ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑنے پر منتج ہوئی۔ 1988ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی‘ 1990ء میں نواز لیگ حکومت بنانے میں کامیاب رہی‘ پیپلز پارٹی نے 1993ء میں نواز حکومت گرا کر اپنی حکومت بنائی اور پھر ایک بار دوبارہ 1997ء میں نواز شریف پیپلز پارٹی کی حکومت گرا کر اپنی حکومت بنانے میں کامیاب رہے‘اِن دونوں سیاسی حریف جماعتوں میں قربت کا آغاز 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہوا۔ اور انہوں نے الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی یا اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی) کا سیاسی اتحاد قائم کیا۔ دونوں جماعتوں نے اے آر ڈی کے تحت مل کر جدوجہد کی اور اسی دوران دونوں جماعتوں کے درمیان چارٹر آف ڈیمو کریسی (میثاق جمہوریت) پر دستخط ہوئے اور دونوں میں سیاسی محبت مزید پروان چڑھی۔ اس چارٹر آف ڈیموکریسی کی بہت سی شقوں پر عمل ہوا۔ سال 2007ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے دوران جب پارلیمنٹ کو بااختیار کرنے کے لئے قانون سازی کی جا رہی تھی اور آئین کے آرٹیکل اٹھاون ٹو بی کو ایک مرتبہ دوبارہ ختم کر کے صدر کے اختیارات کو محدود کر کے ملک میں حکومت توڑنے کا راستہ روکا جا رہا تھا یا جب اٹھارویں ترمیم کے وقت قانون سازی کی جا رہی تھی اس وقت دونوں جماعتوں کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ حالانکہ نواز لیگ اپوزیشن میں تھی لیکن ایک ایک شق پر مشاورت ہو رہی تھی‘ ہر شق پر اتفاق رائے ہو رہا تھا۔ نواز شریف کی مرضی سے اٹھارویں ترمیم پاس ہوئی لیکن دونوں سیاسی جماعتوں میں محبت و ہم آہنگی کا سلسلہ بھی اتار چڑھاؤ کے ساتھ جاری رہا۔دوہزاراٹھارہ کے انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو دوبارہ ایک ساتھ متحد ہونے کی ضرورت محسوس ہوئی اور اسی ضرورت کے تحت پی ڈی ایم کا سیاسی اتحاد وجود میں آیا جس میں پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور جمعیت علما اسلام (فضل الرحمن) سمیت حزب مخالف کی دس جماعتیں شامل ہیں۔ سیاسی قربتوں اور دوریوں کا المیہ یہ ہے کہ جب بھی اقتدار میں آنے کی بات ہوتی ہے تو جس کو اقتدار مل رہا ہوتا ہے وہ سارے اصول بھول جاتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر غلام محی الدین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)