اگر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو منظرنامے میں1977ءمیں ضیا الحق کے اقتدار پر قبضہ اور بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے عدالتی فیصلے کے بعد بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد کا سفر شامل ہے جبکہ دوسری جانب نواز لیگ کے قائد نواز شریف نے اپنی سیاست کا سفر 1980ءکی دہائی کے اوائل میں اس وقت شروع کیا جب پیپلزپارٹی ضیا الحق کی حکومت میں عتاب کا شکار تھی۔ اس دوران دونوں جماعتوں کو کئی مرتبہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا اور انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونے بھی پڑے اور یہ سلسلہ جاری رہا۔ یوں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ دونوں اپنے سیاسی سفر میں زیادہ تر مخالف سمت میں رہیں اور ایک دوسرے کے مد مقابل ہی رہیں ایک پارٹی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑتے تو دوسری ا اقتدار میں آتی۔مگر سال دوہزار کی دہائی کے اوائل میں پرویز مشرف نے اٹھاون ٹو بی کا گڑھا مردہ نکالا اور اسے جھاڑ پونچھ کر سترہویں آئینی ترمیم کے تحت اسمبلی اور وزیرِاعظم کے سر پر تلوار کی طرح لٹکا دیا۔ نواز شریف کو اس سے قبل پرویز مشرف کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہونا پڑا ۔ اِن دونوں سیاسی حریف جماعتوں میں قربت کا آغاز 1999ءمیں سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہوا۔یوں یہ کہنا غلط نہیں کہ پرویز مشرف کی حکومت کے آغاز میں ہی نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں قربت پیدا ہو گئی اور جیسے پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے مشرف حکومت کے خلاف الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی یا اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی) کا سیاسی اتحاد قائم کیا۔ دونوں جماعتوں نے اے آر ڈی کے تحت مل کر جنرل پرویز مشرف کے خلاف جدوجہد کی اور اسی دوران دونوں جماعتوں کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی(میثاق جمہوریت) پر دستخط ہوئے اور دونوں میں سیاسی محبت مزید پروان چڑھی۔ اس چارٹر آف ڈیموکریسی کی بہت سے شقوں پر عمل ہوا‘ بہت سی پر عمل نہیں بھی ہوا۔سال 2007ءکے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے دوران جب پارلیمنٹ کو بااختیار کرنے کےلئے قانون سازی کی جا رہی تھی اور آئین کے آرٹیکل اٹھاون ٹو بی کو ایک مرتبہ دوبارہ ختم کر کے صدر کے اختیارات کو محدود کر کے ملک میں حکومت توڑنے کا راستہ روکا جا رہا تھا یا جب اٹھارویں ترمیم کے وقت قانون سازی کی جا رہی تھی اس وقت دونوں جماعتوں کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ حالانکہ نواز لیگ اپوزیشن میں تھی لیکن ایک ایک شق پر مشاورت ہو رہی تھی‘ ہر شق پر اتفاق رائے ہو رہا تھا۔ نواز شریف کی مرضی سے اٹھارویں ترمیم پاس ہوئی لیکن دونوں سیاسی جماعتوں میں محبت و ہم آہنگی کا سلسلہ بھی اتار چڑھاو¿ کے ساتھ جاری رہا۔ جب پیپلز پارٹی کے دور میں اہم عہدوں پرتعیناتی اور امریکہ میں ایک خط لکھنے کا معاملہ عدالتوں میں چلا تو اس وقت نواز شریف‘ آصف زرداری کے خلاف باقاعدہ کالا کوٹ پہن کر عدالت گئے تھے۔ اسی طرح عدلیہ کی بحالی کےلئے بھی وکلا کا لانگ مارچ لے کر گئے تھے اور گوجرانوالہ کے قریب ہی تھے تو پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کی آزادی اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کا اعلان کر دیا اور یوں یہ معاملہ ٹل گیا۔دوہزارتیرہ کے عام انتخابات کے بعد جب نواز لیگ کی حکومت آئی تو اس وقت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے شروع میں ان کے ساتھ بہت تعاون کیا۔ آصف زرداری بہت اچھے بیانات اور تقریریں کرتے رہے بلکہ جہاں نواز شریف کو ضرورت ہوتی وہ بیان دیتے یا تقریر کرتے۔ نواز لیگ کے تیسرے دور حکمرانی میں دونوں جماعتوں میں ایک مرتبہ پھر دوریاں وقت بڑھیں سندھ حکومت میں جب نیب نے چھاپے مارنے شروع کیے‘ جب رینجرز نے چھاپے مارنے شروع کئے تو آصف زرداری نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور آخر کار دونوں کی راہیں جدا ہو گئیں۔ جب نواز شریف کو عدالتی فیصلے کے ذریعے اقتدار سے رخصت کیا گیا تو اس وقت پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری ان کے ساتھ نہیں بلکہ مخالف صفوں میں کھڑے تھے۔ یعنی یہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں دونوں طرف سے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو دھکا دینے کے انگنت واقعات شامل ہیں۔ دونوں طرف یہ حالت رہی کہ جوبھی اقتدار میں آیا تو اصولوں کو بالائے طاق رکھا گیا اور جس کا اقتدار چھن رہا ہوتا ہے اس کو سارے اصول یاد آ جاتے ہیں۔ اب ایک بار پھر دونوں پارٹیوں کی آزمائش ہے اور دونوں طرف سے ماضی کے واقعات کو بھلانا کوئی آسان کام نہیں وقتی طور پر ساتھ دینا الگ بات ہے تاہم مستقل بنیادوں پر ایک دوسرے کی ترجیحات کو مدنظر رکھنا یکسر مختلف طرز عمل ہے جس کا مظاہرہ کرنا ہر گز آسان نہیں یوں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایک بار پھر دونوں پارٹیوں کے قائدین کی بصیرت اور دور اندیشی کی آزمائش ہو رہی ہے کہ وہ کس طرح ان حالات میں نہ صرف اپنے کارکنوں کو مطمئن رکھے بلکہ جمہوریت کے حوالے سے جو ان کا وژن ہے اس کو بھی برقرار رکھے کیونکہ اکثر تحریکوں میں نقصان تب ہی ہوتا ہے جب قائدین ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ کارکنان ایک دوسرے کے بدظن ہوتے ہیں اور یہ ہر سطح پر جماعتوں میں ہوتا ہے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو ماضی کے حالات و واقعات یقینا یاد ہیں اور وہ یہی سمجھتے ہیں کہ دونوں کے خلاف بننے والے اکثر مقدمات انہی جماعتوں کے ادوار میں بنائے گئے ہیں جن کو اب دونوں بھگت رہے ہیں اس تمام منظر نامے پیپلز پارٹی کی پوزیشن مسلم لیگ نون کے مقابلے میں مضبوط نظر آرہی ہے اور وہ نہ صرف ایک صوبے میں حکومت رکھتی ہے بلکہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں بھی مناسب موجودگی کی حامل ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر غلام محی الدین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)