بہت سے لوگوں کیلئے فیڈریکو کلین کانام جانا پہچانا نہیں ہوگا۔ تاہم انہوں نے ٹرمپ کی 2016 کی مہم پر کام کیا۔ وہ ٹرمپ کے محکمہ خارجہ میں معاون تھے اور حال ہی میں انھیں 6 جنوری کو کیپیٹل پر حملے میں حصہ لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ پولیس کے ساتھ بظاہر جسمانی اور زبانی طور پر مقابلے کا ارتکاب کر چکا ہے۔کلین ٹرمپ کی مہم چلانے اور ایک اہم عہدے پر تعیناتی‘ پرتشدد بغاوت پر مبنی پوری ٹرمپ انتظامیہ کی علامت ہے‘ جوش و جذبے سے، اقتدار کے مرحلے تک اور پھراقتدار سے باہر ہونے تک،یہ افراد اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ یہ صرف ٹرمپ ہی نہیں تھا۔ انہوں نے ایک ایسے دور کی نمائندگی کی جب غصے میں فساد برپا ہوا اور لوگوں کو سب کچھ کر گزرنے کا لائسنس ملااب ہم ایک بالکل مختلف دور میں رہتے ہیں وہ زمانہ گیا کہ مجھے یہ مضمون ٹائپ رائٹر پر لکھنا پڑتا، میں اسے کسی لفافے میں ڈال دیتا، اس پر ڈاک ٹکٹ لگاتا اور اسے کسی اخبار میں پوسٹ کرتا،اس کے برعکس، اب ہم معلومات اور مواقع کے دور میں ہیں۔ میرے پاس میری جیب میں ایک ایسا آلہ موجود ہے جو اسکندریہ کی لائبریری میں اس وقت سے زیادہ ذخیرہ شدہ مواد تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ میں اسی اپریٹس کے ساتھ نوکری کیلئے درخواست دے سکتا ہوں۔ میں آسٹریلیا میں کسی دوست کو پیغام بھیج سکتا ہوں۔ مواصلات کی یہ آسانی تبدیلیوں کی تیز رفتار شرح کو آگے بڑھا رہی ہے۔ آج جو رجحان ہے وہ کل نہیں ہوگا۔امریکہ ہمیشہ تبدیلی کے کنارے پر قائم رہتا تھا: یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ تبدیلی کے بہت سے ذرائع امریکہ میں موجود ہیں۔ یہ ایپل، گوگل، فیس بک ہیں،یہ وہ جگہ ہے جہاں ٹرمپ آتا ہے اور ایسے لوگ بھی موجود تھے کہ جن کیلئے تبدیلی ڈراؤنی ہے۔ وہ اوہائیو اور مشی گن جیسی جگہوں پر قصبوں میں رہتے ہیں جو درمیانی طبقے کی طرز زندگی فراہم کرنے کیلئے فیکٹری نوکریوں پر انحصار کرتے ہیں اگر چہ وقت بدل چکا ہے تاہم پھر بھی وہ امریکہ کے ساحل پر چمکتے ہوئے شہروں میں عالمگیریت سے منسلک ہم منصبوں کے برعکس، وہ اپنے آپ کو’حقیقی“ امریکی سمجھتے تھے،ٹرمپ نے انھیں بتایا کہ وہ حقیقی امریکی تھے، اور شہروں میں رہنے والے ان کے ہم وطن دشمن تھے۔ جنہوں نے حقیقی امریکیوں کو ختم کردیا تھا اور ان کے پاس موجود سب کچھ چھین لیا تھا۔ انہوں نے میکسیکو کے لوگوں کو مزدوری کرنے دی تھی‘ انہوں نے خاندانی روایت اور مذہبی رواج کو مجروح کیا تھا‘انہوں نے ماضی کی یقین دہانیوں کو ختم کردیا تھا۔کیا امریکہ ٹرمپ کے نعرے ”ایک بار پھر عظیم“ کی گونج تک محدود ہوگیا تھا۔ وہ معیشت جو اوبامہ انتظامیہ کی کامیابیوں پر استوار تھی۔ جس نے ٹیکس کٹوتی سے ترقی پائی۔ لیکن کیااس نے تبدیلی کو مزید قابل قبول بنا دیا؟۔ ٹرمپ نے ٹویٹر کے ذریعے اپنے دشمنوں پر حملہ کیا۔ اس کے سوشل میڈیا ہجوم نے بھی بھر پور ساتھ دیا عدم اطمینان سے‘ اقتدار سے مایوسی تک‘غیظ و غضب تک بات اس وقت پہنچی جب ٹرمپ نے دعوی کیا کہ اس کے برخلاف تمام ثبوتوں کے باوجود انتخاب ان سے چوری کیا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے پیروکاروں کا مسلسل غصہ صرف انتخابات کے بارے میں ہی نہیں ہے۔ بلکہ، وہ اسے ان لوگوں کی فتح سمجھتے ہیں جن سے انہیں نفرت کی بات کہی گئی تھی۔جو بائیڈن الیکشن جیت گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے ٹرمپ کے وکلاء نے جو مقدمات دائر کئے وہ بڑے پیمانے پر خارج کردیئے گئے اعداد وشمار نے ٹرمپ کی آخری امیدوں کا گلا گھونٹ دیا، دھوکہ دہی سے نہیں۔ اب امریکہ ایک عجیب قسم کی حیرت اور دھچکے کے بعدکی زندگی سے گزر رہا ہے‘ ایک ایسی دنیا جو چار سال کے غصے اور اس کے اثرات کے صدمے سے دوچار ہے۔ (بشکریہ دی نیوز، تحریر:شاہجہان ملک، ترجمہ: ابولحسن امام)