کراچی: پاکستان اسٹیل ملز (پی ایس ایم) نے 7 کیٹیگریز میں متعدد افسران کو برطرف کردیا۔
اسٹیل ملز انتظامیہ نے برطر ف ملازمین کو قانونی واجبات کے علاوہ مارچ 2021 کی تنخواہ دینے کی یقین دہانی کر ادی۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس نومبر کے آخری ہفتے میں 49 فیصد ورکرز اور 70 فیصد افسران کو نکالا گیا جس کے تحت 4 ہزار 544 افراد بے روزگار ہوئے۔چنانچہ جب 22 مارچ کو نکالے گئے ملازمین کی مجموعی تعداد پوچھی گئی تو اسٹیل ملز کے چیف ایگزیکٹو افسر بریگیڈیئر (ر) شجاع ایچ خرازمی کا کہنا تھا کہ انہیں افسران کی صحیح تعداد نہیں معلوم۔
اس ضمن میں جب اسٹیل ملز کے ترجمان محمد افضل سے رابطہ ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکتے کیونکہ خود وہ بھی نکال دیے گئے ہیں۔
ملازمین کو ارسال کردہ خط کے مطابق اسٹیل ملز انتظامیہ نے سی او بی پی اور ریفریکٹریز ڈیپارٹمنٹ کے سوا پروڈکشن ڈائریکٹوریٹ کے تمام افسران، قابل انجینئرز اور آئی ٹی ماہرین کے سوا ٹیکنکل سروسز ڈائریکٹرز کے تمام افسران کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کے علاوہ قابل انجینئرز کے سوا پروڈکشن، پلاننگ اینڈ کنٹرول، پبلک ریلیشن ڈپارٹمنٹ، پاکستان اسٹیل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ کارپوریٹ پلاننگ اینڈ انویسٹمنٹ کے تمام افسران کو بھی فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ساتھ ہی ساتھ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ کے تمام اسسٹنٹ مینیجرز اور ڈپٹی مینیجرز، مارکیٹنگ اور انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ کے غیر تکنیکی عہدوں پر کام کرنے والے انجینیئرز، فنانس اور اے اینڈ پی ڈائریکٹوریٹ کے سوا تمام کانٹریکٹ اور ڈیلی ویجز کے افسران، اسلام آباد اور لاہور میں تعینات انجینئرز اور ماسٹر ڈگری رکھنے والے ملازمین کے سوا زونل دفاتر کے افسران کو بھی فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
خط میں مزید کہا گیا کہ چونکہ آپ برطرف ہونے والے ملازمین کی مذکورہ بالا کیٹیگری سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے آپ کی ملازمت فوری طور پر ختم کی جاتی ہے۔خط کے مطابق 'تاہم فوری برطرفی کے باوجود آپ کو ملازمت کی شرائط و ضوابط کے مطابق قانونی واجبات کے علاوہ مارچ 2021 کی تنخواہ ادا کی جائے گی۔
خط میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ نہ صرف ملازمین بلکہ انتظامیہ کے لیے بھی تکلیف دہ ہے تاہم ملک اور اسٹیل ملز کے مفاد میں یہ فیصلہ اٹھایا گیا۔
برطرفیوں کا جواز دیتے ہوئے انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اسٹیل ملز کئی برسوں سے نقصان برداشت کررہی ہے اور جون 2020 تک اس خسارے کا حجم 2 کھرب 12 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا جبکہ ملز میں پیداواری کام سال 2015 سے موقوف ہے۔
انتظامیہ کے مطابق نہ تو کمپنی کے پاس ملز کی تجدید کے لیے پیسے ہیں اور نہ اسٹیل ملز کی بحالی کے لیے کسی بھی ذریعہ سے پیسہ میسر ہے، کسی بھی صورت ملز کی تجدید کے لیے سب سے پہلے بھاری سرمایہ کاری، دوسرا کم از کم 2 سال کا عرصہ درکار ہوگا۔
سابق ملازمین نے اس صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک جانب وزیر نجکاری محمد میاں سومرہ اسٹیل ملز کی بحالی کی بات کرتے ہیں دوسری جانب ملازمین کو تیزی سے برطرف کیا جارہا ہے۔