پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں مثبت پیشرفت دیکھنے میں آئی ہے جسے دو جوہری ممالک کے دفاعی تجزیہ کار انتہائی دلچسپ ضروری اور غیرمعمولی قرار دے رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اِس بات کی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ پاک بھارت کی حالیہ قربت میں پس پردہ رہتے ہوئے تیسری طاقتیں (دوست ممالک سفارتی) کردار ادا کر رہی ہیں۔ اِس سلسلے میں سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ عادل الجبیر خود سامنے آئے ہیں جنہوں نے چند دن قبل ذرائع ابلاغ سے بات چیت کے دوران اِس بات (اپنی کوششوں) کا اعتراف کیا تھا کہ سعودی عرب بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ عرب نیوز کو دیئے گئے مذکورہ انٹرویو میں الجبیر نے یہ بھی کہا تھا کہ ”سعودی عرب پورے خطے میں امن چاہتا ہے اور اس کے لئے متعدد سطح پر کوشش کر رہا ہے۔“ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حالیہ واقعات اِسی پسِ پردہ پیش رفت کا نتیجہ ہیں۔ قبل ازیں اٹھارہ مارچ کو پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے مستحکم تعلقات وہ چابی ہے جس سے مشرقی اور مغربی ایشیا کے مابین رابطے کو یقینی بناتے ہوئے جنوبی اور وسطی ایشیا کی صلاحیتوں کو ”ان لاک“ کیا جا سکتا ہے تاہم یہ موقع دو ایٹمی ہمسایہ ممالک کے مابین تنازعات کی وجہ سے یرغمال بنا ہوا ہے۔ تنازعہ کشمیر واضح طور پر اس مسئلے کا مرکز ہے۔ پہلے اسلام آباد سیکورٹی مذاکرات کے نام سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ”برصغیر میں امن کا خواب ادھورا ہے جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوجاتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ماضی کو دفن کیا جائے اور آگے بڑھا جائے تاہم بامعنی مذاکرات سے قبل ہمارے پڑوسی ملک کو ماحول کو سازگار بنانا ہوگا خاص طور پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں۔“ پاکستان کی جانب سے حال ہی میں سرحد پر فائربندی کا معاہدہ کیا گیا جس کے بعد آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ کی انڈیا کو مذاکرات کی یہ پیشکش سامنے آئی ہے۔ آرمی چیف کے اِس بیان سے قبل وزیر اعظم عمران بھی کہہ چکے تھے کہ بھارت کشمیر میں جاری کشیدگی کم کرے۔ انھوں نے کہا تھا کہ بھارت بڑا ملک اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس پیشکش کا مثبت جواب دے۔ کشمیر اہم مسئلہ ہے جس کی وجہ سے گڑ بڑ ہوتی ہے اس سے قبل بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت سے اس پر بات ہوئی‘ کانگریس کی من موہن سنگھ حکومت نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھا‘ یہ ایک سچی پیشکش ہے کہ پاکستان جنگ کے حق میں نہیں وہ مذاکرات چاہتا ہے۔پاک فوج کے سربراہ نے حالیہ چند ہفتوں میں جس مثبت رویئے کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ معاشی ترقی اہم‘ اس خطے میں امن ہونا چاہئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک سمت متعین کر رہے ہیں اور بجائے کشیدگی بڑھانے کہ اسے کم کرنا چاہتے ہیں اور خطے میں معاشی ترقی ہو تو یقینا یہ ایک مثبت پیشرفت ہوگی۔ اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ فائر بندی کی گئی جس سے امید پیدا ہوئی کہ کشیدگی کم ہو رہی ہے جبکہ اس سے قبل صورتحال مختلف تھی اب سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور پاک فوج کے سربراہ نے اس کا ہی اظہار کیا ہے۔ آرمی چیف کی تقریر کا ’ٹارگٹ آڈینس‘ بھارت تھا۔ اس سے پہلے بھی وہ اس نوعیت کا بیان دے چکے ہیں کہ امن کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد دونوں ممالک میں سیز فائر معاہدہ ہوا اس میں یقینا کچھ دوست ممالک شامل ہوں گے۔ یہ سیز فائر کا جو ماحول بنا ہوا وہ اس کا فائدہ لیتے ہوئے مذاکرات چاہتے ہیں۔ سیاسی اور عسکری قیادت چاہتی ہے جہاں سے یہ سلسلہ ختم ہوا تھا وہاں سے شروع کیا جائے‘ اسی لئے وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ماضی کو بھول کر آگے بڑھیں۔ آرمی چیف کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی دباو¿ میں امن کی بات نہیں کر رہے۔ دراصل پاکستان کئی سالوں سے امن کے قیام کی کوشش کر رہا ہے لیکن مودی حکومت اس کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے‘ جو ایک رائیٹ ونگ مسلم مخالف جماعت کی حکومت ہے اور وہ پاکستان سے اِس لئے بھی زیادہ قربت نہیں رکھنا چاہتی کیونکہ پاکستان چین کے قریب ہے تاہم بھارت کے رویئے میں تبدیلی آئی ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کو یومِ پاکستان (23 مارچ) کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”ایک پڑوسی ملک کے طور پر بھارت پاکستان کے عوام کے ساتھ خوشگوار تعلقات چاہتا ہے۔ انھوں نے اپنے تحریری پیغام میں مزید لکھا ہے کہ ایسا ممکن بنانے کے لئے ’دہشت گردی اور دشمنی سے خالی اور اعتماد سے بھرپور ماحول کی ضرورت ہے۔‘ اسی طرح بھارت کے صدر رام ناتھ کووند نے بھی پاکستان کے صدر عارف علوی کے نام ایک خط میں اُنہیں یوم پاکستان کے موقع پر مبارکباد پیش کی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ نریندر مودی کا خط بنام عمران خان ایسے وقت میں آیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول پر نئے سرے سے جنگ بندی ہوئی ہے اور گذشتہ مہینے دونوں ملکوں کے ملٹری آپریشن کے ڈائریکٹرز نے اچانک کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا اعلان کیا اور تب سے جنگ بندی پر مکمل طور پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ اِن دنوں سندھ طاس معاہدے کی سالانہ بات چیت کےلئے پاکستان کا آٹھ رکنی وفد انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ کی قیادت میں نئی دلی میں اپنے انڈین ہم منصبوں سے بات چیت کر رہا ہے۔ یہ بات چیت دو سال بعد ہو رہی ہے جبکہ قواعد کی رو سے اِسے ہر سال (باقاعدگی سے) ہونا چاہئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دوست ممالک (عالمی کوششوں) سے پاک بھارت تعلقات میں جو بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں وہ کتنے پائیدار اور تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: محمل سرفراز۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)