پی ڈی ایم وجود اور جواز؟۔۔۔۔

پارلیمانی سیاست میں مرکزی اور ثانوی کردار ادا کرنے والی حزب اختلاف کی گیارہ جماعتوں نے ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)‘ کے نام سے اتحاد بنایا اور جن 26 نکات کے حصول کےلئے جدوجہد کا اعلان کیا اُس کے کسی ایک بھی ہدف کا حصول تو دور کی بات، سنجیدہ نوعیت کے اختلافات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ انتشار کی شکار حزب اختلاف میں بڑھتی ہوئی دوریاں غیرمعمولی ہیں جن کی وجہ صرف دو بڑے سیاسی حلیفوں کے درمیان ہونے والی لفظوں کی جنگ نہیں بلکہ اِس مرحلے پر تو ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی کسی ایک حکمت ِعملی پر کبھی بھی رضامند (متفق) نہیں ہوسکتیں۔ اس صورتحال کو پی ڈی ایم کا ”اختتام“ تو نہیں کہہ سکتے تاہم اس اتحاد میں آنے والا انتشار مستقبل کی خبر دے رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اتحاد باقی رہے لیکن موجودہ نظام کو چیلنج کرنے کی اس کی قوت ختم ہوسکتی ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے ہی پی ڈی ایم کسی ایک بیانیے پر متفق نظر نہیں آئی۔ اگرچہ پی ڈی ایم نے کچھ بڑے عوامی اجتماعات کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو پریشان ضرور کیا ہے لیکن حکمت ِعملی اور مقصد پر عدم اتفاق نے اس کے زور کو کم کردیا ہے۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے اداروں پر تابڑ توڑ حملے اور موجودہ جمہوری حکومت کو گرانے کی باتیں پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلاف کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی سیاسی نظام کو ”ڈی ریل“ نہیں کرنا چاہتی۔ اسی وجہ سے پیپلز پارٹی نے اتحادیوں کو اس بات پر قائل کرلیا کہ انتخابی سیاست میں رہتے ہوئے موجودہ حکومت کے خلاف جدوجہد کی جائے۔ پی ڈی ایم اتحاد میں پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس کی کسی صوبے میں حکومت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام سے باہر نکلنا کسی بھی صورت پیپلز پارٹی کے مفاد میں نہیں ہے۔ پی ڈی ایم اب تک عوامی دباو¿ کی مدد سے حکومت کے اختیار کو بھی چیلنج نہیں کرسکی ہے۔ اس طرح کے کچھ دیگر اسباب نے بھی پی ڈی ایم کو اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اپنے تحفظات کے باوجود نواز لیگ نے ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور جنوری میں طے شدہ لانگ مارچ کو ملتوی کیا۔ انتخابی عمل کا بائیکاٹ نہ کرنے کا فیصلہ درست ثابت ہوا کیونکہ اپوزیشن جماعتوں نے اپنی سیٹیں واپس حاصل کرلیں۔ اس سے ان کو حوصلہ ملا اور حکومت دفاعی پوزیشن پر چلے گئی۔ اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست پر یوسف رضا گیلانی کی جیت نے جہاں حکومت کو شدید دھچکا پہنچایا وہیں پیپلز پارٹی کے اس بیانیے کو بھی درست ثابت کیا کہ حکومت کو اس نظام میں رہتے ہوئے شکست دی جاسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر زور دے رہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ حکومتی بینچوں سے بھی کچھ اراکین عثمان بزدار کی غیر مو¿ثر حکومت کو گرانے میں مددگار ثابت ہوں گے تاہم نواز لیگ پنجاب اسمبلی میں سب سے زیادہ سیٹیں رکھنے والی جماعت ہونے کے باوجود تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں۔ وزیرِاعظم کا قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا اور چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں اپوزیشن کو لگنے والے جھٹکے کے بعد اب پی ڈی ایم کے اندر بھی سیاست میں اسٹیبلشمٹ کے کردار پر دوبارہ بحث شروع ہوچکی ہے اگرچہ پیپلز پارٹی سینیٹ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے غیر جانبدار رہنے پر یقین رکھتی ہے تاہم نواز لیگ کو اس خیال سے اتفاق نہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ پر حملے کرنا کوئی حیران کن بات نہیں۔ پارٹی رہنماو¿ں کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے اداروں کے خلاف سخت زبان استعمال کی۔ فی الحال اس بات کا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی حکومت کی حمایت ترک کردے گی۔ سینیٹ انتخابات کے نتیجے کو دیکھا جائے تو یوسف رضا گیلانی کی جیت کے علاو¿ہ کوئی بھی نتیجہ غیر معمولی نہیں تھا۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں بھی سات ووٹ مسترد ہونے سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار فتحیاب ہوئے۔ پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کردیا ہے تاہم ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ چند حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین نے اپوزیشن کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیئے لیکن ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ایسا اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے باعث ہوا ہے۔ایوان میں اکثریت ہونے کے باوجود بھی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں شکست پی ڈی ایم کے لئے دھچکا ثابت ہوا ہے اور اس سے پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی پوزیشن کچھ بہتر ہوگئی ہے۔ اسی وجہ سے پی ڈی ایم کے اندر حکومت کا مقابلے کرنے کی حکمت ِعملی پر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان اختلاف پیدا ہوا ہے۔ یہ اختلاف گزشتہ ہفتے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں سامنے آیا۔ نواز لیگ اور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) اسمبلیوں سے استعفے دے کر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنا چاہتی تھیں۔ یہ دونوں ہی جماعتیں پارلیمانی سیاست کو نہ چھوڑنے کے پیپلز پارٹی کے بیانیے کو ماننے کےلئے راضی نہیں تھیں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ اسمبلیوں سے استعفے دینے کے بعد سیاسی غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوجائے گی جو کسی غیر آئینی مداخلت کا سبب بن سکتی ہے۔ سندھ کی حکومت چھوڑنا بھی پیپلز پارٹی کےلئے نقصان کا سودا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ایسی جماعت جس کا سیاسی اثر و رسوخ سمٹ کر اب صرف سندھ تک محدود رہ گیا ہے‘ آزمائش میں نہیں پڑنا چاہتی۔ آصف زرداری نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں واضح الفاظ میں یہ بات کہی تھی انہوں نے اپنی جماعت کے استعفوں کو نواز شریف کے پاکستان واپس آنے اور حزب اختلاف کی تحریک کی قیادت کرنے سے مشروط کیا۔ اس وجہ سے ان دونوں جماعتوں کے درمیان معاملات بحث و تکرار کی جانب چلے گئے اور پرانی رقابتیں دوبارہ ظاہر ہوگئیں۔ اب الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس میں دونوں جماعتوں کی نئی قیادت شامل ہے بہرحال ان سب باتوں کے بعد بھی حزب اختلاف کی جماعتوں کے راستے جدا نہیں ہوئے ہیں۔ اب بھی اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ دونوں جماعتیں اس اتحاد میں ایک ساتھ چل سکتی ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)