بنگلہ دیش کے 50 سال

مارچ دوہزاربیس کی بات ہے جب دارالحکومت ڈھاکہ سے خبر آئی کہ وہاں ایک اخباری فوٹو گرافر اسلام کاجول کو نامعلوم افراد دن دیہاڑے ایک ویگن میں زبردستی اٹھا کر لے گئے۔ ان کے گھر والوں کو پینتیس دن تک کچھ ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوا اور پھر وہ ڈھاکہ سے سینکڑوں کلومیٹر دور بنگلہ دیش اور بھارت کی سرحد کے قریب سے ملے اور ان کے ہاتھ ان کی پشت پر بندھے ہوئے تھے جبکہ ان کی آنکھوں پر بھی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ ڈی ایس اے کے تحت ’نامناسب‘ ہتک آمیز اور حکمران جماعت عوامی لیگ کے سیاست دانوں کے بارے میں لغو معلومات کو فیس بک پر آ گے بڑھانے کے جرم میں سات ماہ تک جیل میں رہے۔ اسلام کاجول کو بالآخر دسمبر دوہزاربیس میں رہا کر دیا گیا۔ بنگلہ دیش میں ڈی ایس اے کا قانون اکتوبر دوہزاراٹھارہ میں شہری اور صحافتی تنظیموں کی طرف سے شدید اختلاف کے باوجود منظور کیا گیا جس کے تحت حکومت کو وسیع اختیارات حاصل ہوئے ہیں جن میں لسانی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے اور بدامنی پھیلانے کے الزامات لگا کر کسی کو بھی دس سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ حکومت کے خلاف آوازوں کو دبایا جا سکے۔ برطانیہ میں قائم ذرائع ابلاغ پر نظر رکھنے والے ایک غیر سرکاری ادارے آرٹیکل اُنیس کا کہنا ہے کہ صرف دوہزاربیس میں اس قانون کے تحت تین سو بارہ افراد پر مقدمات چلائے گئے۔ جن میں سے ستر سے زیادہ کا تعلق ذرائع ابلاغ سے تھا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے میں ایشیا ء پیسفک دفتر کا کہنا ہے کہ ڈی ایس اے کے بے دریغ استعمال کا صحافتی اور شہری آزادیوں پر بڑا منفی اثر پڑا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا ء نے اس صورتحال کو نیا رخ دیا ہے اور بہت سے لوگوں کو ڈی ایس اے کے قانون کے تحت حکومت کی طرف سے وبا ء پر قابو پانے کے لئے کئے جانے والے اقدامات پر تنقید کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کا اصرار ہے کہ ڈی ایس اے کا قانون تنقید اور اختلاف رائے کو دبانے کے لئے نہیں اور یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی ڈیجیٹلائزیشن کے پس منظر میں بنایا جانا ضروری تھا۔ حکومت پر بڑھتی ہوئی تنقید پر وزیر قانون انیس الحق نے حال ہی میں کہا تھا اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور کسی شخص کو بھی تحقیقات مکمل کئے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکے گا۔شیخ حسینہ کی حکومت دوہزارآٹھ سے مسلسل بنگلہ دیش میں برسراقتدار ہے۔ ان کی حکومت کو سیاسی طور پر منقسم اور انتشار کے شکار ملک میں استحکام پیدا کرنے‘ معاشی ترقی کی راہ پر ڈالنے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ شیخ حسینہ کے اقتدار کے دوران ملک نے گزشتہ دس برس میں چھ اور سات فیصد کی شرح سے ترقی کی ہے۔ چین کے بعد بنگلہ دیش دنیا بھر میں ریڈی میڈ کپڑے برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ عالمی وبا ء کورونا کے پھیلنے سے پہلے دوہزاراُنیس میں بنگلہ دیش نے چونتیس ارب ڈالر کے کپڑے بیرونی دنیا کو فروخت (برآمد) کئے اس شعبے سے چالیس لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے جس میں اکثریت خواتین کی ہے۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ معاشی نمو کی وجہ سے لاکھوں لوگ غربت سے باہر نکلے ہیں اور پرائمری تعلیم‘ صحت اور معاشی ترقی میں شیخ حسینہ کے دور اقتدار میں خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہوئی ہے۔ گزشتہ دو عام انتخابات (دوہزارچودہ اور دوہزاراٹھارہ) میں عوامی لیگ کو واضح کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کے سب سے بڑے اتحاد‘ جس نے دوہزارچودہ میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا‘ نے دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور وسیع پیمانے پر انتخابی بدعنوانی اور دھاندلی کے الزامات عائد کئے تھے۔ عوامی لیگ کے گزشتہ بارہ برس کے دور اقتدار میں جبری گمشدگیوں‘ ماورائے عدالت ہلاکتوں اور بے شمار ناقدین اور سیاسی مخالفین کو قید میں ڈالنے کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ ڈھاکہ میں قائم ایک انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق دوہزارنو کے بعد سے اب تک پانچ سو ستاسی افراد کی جبری گمشدگیاں ہوئیں۔ اکیاسی افراد کی لاشیں ملیں اور ایک سو انچاس تاحال لاپتہ ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ دوہزاردس کے بعد سے اب تک سینکڑوں بنگلہ دیشیوں کی ماورائے عدالت ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ انسانی حقوق اور خاص طور پر شہریوں کے سیاسی اور سماجی حقوق کم ہوئے ہیں جبکہ بنگلہ دیشی حکام واضح طور پر ماورائے عدالت ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ چھبیس مارچ کو جب بنگلہ دیش‘ پاکستان سے سقوط کی پچاسویں سالگرہ مناتا ہے تو حکومت کی جانب سے ملک میں شہری آزادیاں سلب کرنے کی باز گشت ایک بار پھر سنائی دے رہی ہے۔ اسی ماہ بنگلہ دیش اپنے بانی شیخ مجیب الرحمٰن‘ جو وزیر اعظم شیخ حسینہ کے والد ہیں، کا یوم پیدائش بھی ہے۔ بنگلہ دیش کو بہت سے لوگ ترقی کی مثال کے طور پر دیکھ رہے ہیں لیکن پچاسویں سالگرہ کے موقع پر کچھ لوگ ان خدشات کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ ملک سیاسی عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے ماحول میں یک جماعتی نظام کی طرف بڑھ رہا ہے اور ان جمہوری اقدار اور اصولوں کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں جن پر اس ملک کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر عارف صدیقی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)