اقتصادی خودمختاری اصلاحات۔۔۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی پاکستان کو قرض دینے کی شرائط کے تحت سٹیٹ بینک آف پاکستان کو زیادہ خود مختاری دی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956ءمیں درجنوں ایسی ترامیم تجویز کی ہیں جن کے تحت سٹیٹ بینک زیادہ خود مختار ادارہ بن جائے گا۔ اگرچہ نوے کی دہائی میں ہونے والی ترامیم کے تحت سٹیٹ بینک کو خود مختاری حاصل ہے تاہم تازہ ترین ترامیم اسے بہت زیادہ خود مختارر بنا دیں گی اور ماہرین معیشت کے مطابق اب مرکزی بینک کسی حکومتی ادارے کو اپنی پالیسیوں کے لیے جوابدہ نہیں ہو گا۔ سٹیٹ بینک کی زیادہ خود مختاری کی ترامیم کے تحت اب اس کا پہلا کردار ملک میں داخلی طور پر قیمتوں میں استحکام لانا ہے یعنی مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے۔ دوسرا کردار مالیاتی استحکام ہو گا یعنی ایکسچینچ ریٹ کا استحکام جبکہ تیسرے نمبر پر حکومت کی معاشی ترقی کی کوششوں میں مدد دینا ہے۔ سٹیٹ بینک کے نئے کردار میں ملکی معاشی ترقی کو سب سے نیچے رکھا گیا ہے جو معیشت کے ماہرین کے نزدیک ایک خطرناک منظر نامے کی نشاندہی کرتا ہے۔ حکومتی اور مالیاتی شعبے سے وابستہ افراد کے نزدیک معاشی ترقی میں سٹیٹ بینک کا کردار ایک مددگار کا تو ہو سکتا ہے تاہم اسے مکمل طور پر اس کا ذمہ دار نہیں قرار دیا جا سکتا۔ پاکستان کی معاشی ترقی اس وقت نچلی سطح پر ہے۔ گزشتہ مالی سال میں کورونا وارئرس اور دوسرے عوامل کی وجہ سے پاکستان کی معاشی ترقی ستر برسوں کے بعد منفی زون میں چلی گئی تھی جبکہ اس سال اس کا دو فیصد سے کچھ زیادہ رہنے کا حکومتی ہدف ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے قوانین میں تجویز کردہ ترامیم کے مطابق سٹیٹ بینک کے کردار کا از سر نو تعین کیا گیا ہے جن میں داخلی طور پر مہنگائی اور مالیاتی نظام کو استحکام دینے کو اولیت دی گئی ہے جبکہ معاشی ترقی میں اس کی مدد کو فہرست میں آخری نمبر پر رکھا گیا ہے۔ ان ترامیم کے تحت سٹیٹ بینک حکومت کو ادھار نہیں دے گا لیکن اگر سٹیٹ بینک میں سرمائے اور ذخائر منفی سطح پر گر جاتے ہیں تو وفاقی حکومت کو اسے ضروری رقم فراہم کرنا پڑے گی۔ مجوزہ ترامیم کے تحت نیب‘ ایف آئی اے اور دوسرے وفاقی و صوبائی اداروں کو بینک کے ملازمین‘ ڈائریکٹرز‘ ڈپٹی گورنروں اور گورنر کو ان کے فرائض کی ادائیگی پر کاروائی کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔ سٹیٹ بینک کے قانون میں تحت ملک کی زری (مانیٹری) اور مالیاتی (فسکل) پالیسیوں کو مربوط رکھنے کےلئے کوآررڈینیشن بورڈ ہوتا ہے تاہم ترامیم کے تحت اب گورنر سٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ باہمی رابطے سے یہ کام کریں گے۔ وفاقی سیکرٹری خزانہ مجوزہ ترامیم کے مطابق سٹیٹ بینک کے بورڈ کا رکن نہیں ہو گا۔ گورنر سٹیٹ بینک کی مدت ملازمت تین سال کی بجائے پانچ سال ہو گی اور مجوزہ قانون میں تین برس کی توسییع کی بجائے پانچ سال توسیع کی تجویز دی گئی ہے۔ موجودہ قانون میں صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ذمہ داریاں نہ نبھانے پر گورنر کو اس کے عہدے سے ہٹا سکتا ہے تاہم مجوزہ ترمیم کے تحت صدر بہت ہی سنگین غلطی پر‘ جس کا فیصلہ عدالت کر ے گی‘ گورنر کو ہٹا سکتا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت دیہی علاقوں‘ صنعتی شعبوں‘ ہاو¿سنگ اور دیگر شعبوں کے لئے سٹیٹ بینک کا قرض دینا لازمی ہے تاہم ترامیم کے تحت اب حکومت کی جانب سے ایسے شعبوں کےلئے قرض کی فراہم کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ایک نکتہ¿ نظر یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت سٹیٹ بینک کے قانون میں ترامیم کر کے اسے خود مختار بنا کر معیشت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ مذکورہ ترامیم کے بعد حکومت کا کردار ختم ہو جائے گا اور سٹیٹ بینک بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو قرض ادا کرے گا۔ قانون میں ترمیم کے مطابق جب سٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر میں کمی ہو گی تو حکومت کو اسے ہر صورت میں پیسے ادا کرنا پڑیں گے جس کےلئے اسے غیر ملکی قرضہ حاصل کرنا پڑے گا یعنی قرض کو ادا کرنے کےلئے مزید نیا قرض لینا پڑے گا۔ اسی طرح حکومت کا سٹیٹ بینک سے ادھار لینا بند ہو جائے گا اور اسے کمرشل بینکوں سے ادھار لینا پڑے گا جو مہنگا ہوتا ہے۔ ان ترامیم کے تحت سٹیٹ بینک اور اس میں کام کرنے والے ہر قسم کی جوابدہی سے بالاتر ہو جائیں گے اور ان کے اقدامات کو قانون کے شکنجے میں نہیں لایا جا سکتا۔ نئے بورڈ میں حکومتی نمائندگی سرے سے موجود ہی نہیں ہو گی تو کیسے ملک کی زری اور مالیاتی پالیسی کو مربوط بنایا جائے گا۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران دنیا کے مختلف ملکوں نے اپنے لوگوں اور انڈسٹری کو مراعاتی پیکج دیئے۔ پاکستان نے بھی انڈسٹری کو مراعاتی پیکج دیا تاکہ معاشی سرگرمی میں اضافہ کیا جا سکے تاہم اب ایسا کوئی کردار سٹیٹ بینک ادا نہیں کرے گا۔ معقول حد تک سٹیٹ بینک کی خود مختاری ہونی چاہئے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں تاہم ترامیم پر پارلیمان میں بحث کرانے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں مزید بہتر بنایا جا سکے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے خود مختاری کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ سٹیٹ بینک کے کردار کے از سر نو تعین سے پتا چل جاتا ہے کہ معاشی ترقی حکومت کی ترجیحات تیسرے نمبر پر ہیں۔ اب سٹیٹ بینک کا کردار معاشی ترقی اور ملازمتیں پیدا کرنے میں ختم ہو جائے گا اور ان کا کام مہنگائی پر قابو پانا ہو گا۔ حکومت سٹیٹ بینک سے پیسے لے کر ترقیاتی کاموں پر لگاتی ہے تاہم اب یہ پیسے بھی نہیں ملیں گے کیونکہ اب کمرشل بینکوں سے ہی پیسہ لیا جائے گا جو مہنگا ہوتا ہے اور حکومت کے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کےلئے استعمال ہوتا ہے۔ افراط زر کنٹرول کرنے کےلئے شرح سود میں اضافہ ہو گا جس سے نجی شعبے کو جانے والا قرضہ مہنگا ہو گا اور معاشی سرگرمی کےلئے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر بلال جاوید۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)