حقیقی مسائل اور مقامی حل۔۔۔

کیا ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حقیقی مسئلہ ہے؟ کیا سینیٹ اِنتخابات حقیقی مسئلہ ہے؟ پاکستان کے3کروڑ 20 لاکھ سیاسی سوچ رکھنے والے عوام کے لئے ’پی ڈی ایم‘ اور سینٹ انتخابات کوئی مسئلہ نہیں لیکن باقی ماندہ پاکستانیوں کےلئے ’پی ڈی ایم‘ اور سینٹ انتخابات حقیقی مسئلہ ہیں کیونکہ اِن کا تعلق اُن کی روزمرہ زندگی اور درپیش مسائل و سیاسی طرزحکمرانی سے ہے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل میں سرفہرست ’اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ‘ ہے جس سے عوام کی اکثریت انتہائی پریشان دکھائی دے رہی ہے اور ایک عام آدمی کو اِس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اپنی مستقل یا غیرمستقل آمدنی کے ذریعے کس طرح مہنگائی کا مقابلہ کرے۔ ہر روز قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ہر روز اُس کے بجلی و گیس کا بل بڑھ رہا ہے لیکن اُس کی آمدنی کم ہو رہی ہے تو اِس صورتحال سے مستقل بنیادوں پر وہ کس طرح نمٹے جبکہ حکومت اُس کی رہنمائی اور مدد بھی نہیں کر رہی اور ہر طرف سے اُسے دھتکار مل رہی ہے! پاکستان میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ 80فیصد عوام کا بنیادی مسئلہ ہے اُور یہی80فیصد عوام اپنی کل آمدنی کا 80 فیصد سے زیادہ کھانے پینے کی اشیا خریدنے پر خرچ کر رہے ہیں۔ تصور کریں کہ ایک طبقہ جس کی کل آمدنی کا 80 فیصد صرف کھانے پینے پر خرچ ہو رہا ہو وہ باقی ماندہ 20 فیصد مالی وسائل سے کس طرح اور کس قدر مشکل میں زندگی بسر کر رہا ہوگا۔ 2 سال پہلے کی بات ہے کہ پاکستان کا ایک اوسط خاندان آٹے گندم کی اپنی ضرورت پورا کرنے پر سالانہ 27 ہزار روپے خرچ کرتا تھا جو بڑھ کر 58 ہزار روپے سالانہ ہو چکے ہیں۔ یعنی آج پاکستان کے ہر خاندان کو اوسطاً31 ہزار روپے اضافی صرف آٹا خریدنے پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ ماضی میں اِس قدر مہنگائی کی کوئی مثال نہیں ملتی اور قیام پاکستان کے 70 سال کا جائزہ لیا جائے تو مہنگائی کی شرح کبھی بھی اِس قدر کم عرصے میں اِس قدر نہیں بڑھی۔ تصور کریں کہ 2 سال کے عرصے میں گندم کے آٹے کی قیمت میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور یہی عام آدمی کا حقیقی مسئلہ ہے۔ دو سال پہلے پاکستان میں بجلی کے صارفین مجموعی طور پر سالانہ 1.1 کھرب روپے کی بجلی استعمال کرتے تھے آج اُسی قدر بجلی کی قیمت 3 کھرب روپے ادا کی جا رہی ہے اور بجلی کی یہ اضافی قیمت ادا کرنے والے ہر خاندان پر 66 ہزار روپے کا اضافی بوجھ بڑھ گیا ہے۔ کیا ہمارے سیاسی فیصلہ سازوں کو عام آدمی کی حالت زار سے کوئی غرض نہیں کہ اُس کی جیب پر کھانے پینے سے لیکر بجلی جیسی بنیادی ضرورت کے استعمال تک کا بوجھ ناقابل برداشت ہو چکا ہے؟کھانے پینے کی اشیاءکی مہنگائی اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کےساتھ دوسری طرف مختلف شعبوں میں دی جانےوالی ٹیکس رعایت حکومت نے بتدریج کم کرنےکی بجائے اچانک ختم کر دی ہے۔ اِس طرح صنعتوں پر پر 140 ارب روپے کا ٹیکس بوجھ منتقل ہوگا جس کی وجہ سے مہنگائی کی متوقع نئی لہر آئے گی کیونکہ بالآخر صنعتوں سے پیدا یا حاصل ہونے والی اشیاءعوام ہی مہنگے داموں خریدیں گے۔ اِن اور اِن جیسے دیگر کئی مسائل کا مقامی حل موجود ہے جو سیاسی استحکام ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)